Skip to main content

جب زکوئی سلطان صلاح الدین ایوبی کے خیمے میں پہنچی



 اگلے دس دنوں میں ھزارھا تربیت یافتہ سپاھی امارت مصر کی فوج میں آگیے اور ان دس دنوں میں ذکوئی کو ناجی نے ٹریننگ دے دی کہ وہ سلطان کو کون کون سے طریقے سے اپنے حسن کی جال میں پھنسا کر اسکی شخصیت اور اسکا کر دار کمزور کر سکتی ھے۔ ناجی کے ھمر از دوستوں نے جب ذکوئی کو دیکھا تو انھوں نے کہا کہ مصر کے فرغون بھی اس لڑکی کو دیکھ لیتے تو وہ حدائی کے وعدے سے دستبردار ھو جاتے ، ناجی کا جاسوسی کا اپنا نظام تھا ، بہت تیز اور دلیر ،، وہ معلوم کر چکا تھا کہ علی بن سفیان سلطان کا حاص مشیر ھے ۔ اور عرب کا مانا ھوا سراغرساں ، اس نے علی کے پیچھے اپنے جاسوس چھوڑ دیئے تھے اور علی کو قتل کرنے کا منصوبہ بھی تیار کیا تھا۔ ذکوئی کو ناجی نے سلطان صلاح الدین ایوبی کو اپنے جال میں پھسانے کے لیے تیار کیا تھا لیکن وہ محسوس بھی کر سکا کہ مراکش کی رھنے والی یہ لڑ کی خود اسکے اپنے اعصاب پر سوار ھوگی ھے، وہ صرف شکل وصورت ھی کی دلکش تھی تھی ، اس کی باتوں میں ایسا جادو تھا کہ ناجی اسکو اپنے پاس بٹھا کر باتیں بھی کیا کرتا تھا اس نے دو ناچنے گانے والیوں سے نگاہیں پھیر لی، جو اسکی منظور نظر تھی، تین چار راتوں سے ناجی نے ان لڑکیوں کو اپنے کمرے میں بلایا بھی تھی تھا، ناجی سونے کے انڈے دینے والی مرغی تھی جو انکے آغوش سے ذکوئی کی آغوش میں چلی گی تھی ، انھوں نے ذکوئی کو راستے سے ھٹانے کی ترکیبیں شروع کر دی ، وہ آخر اس نتیجے پر پہنچے کہ اسے قتل کیا جائے لیکن اسکو قتل کرنا اتنا آسان نہ تھا کو نکہ ناجی نے اسے جو کمرہ دیا تھا اس پر دو محافظوں کا پہرہ ھوا کرتا تھا، اسکے علاوہ یہ دونوں لڑکیاں اس مکان سے بلا اجازت تھی نکل سکتی تھی جو ناجی نے انھیں دے رکھا تھا ، انھوں نے حرم کی خادمہ ) نوکرانی ( کو اعتماد میں لینا شروع کیا، وہ اسکے ھاتھوں ذکوئی کو زھر دینا چاھتی تھی۔۔


علی بن سفیان نے سلطان صلاح الدین ایوبی کا محافظ دستہ بدل دیا ، یہ سب امیر مصر کے پرانے باڈی گارڈ ز تھے، اس کی جگہ علی نے ان سپاھیوں میں باڈی گارڈ ز کا دستہ تیار کیا جو نئے آے تھے، یہ جانبازوں کا نیا دستہ تھا جو سپاہ گری میں بھی تاک تھا، اور جذبے کے لحاظ سے ھر سپاھی اس دستے کا اصل میں مرد مجاھد تھا۔ ناجی کو یہ تبدیلی بلکل بھی پسند تھی تھی۔ لیکن اس نے سلطان صلاح الدین ایوبی کے سامنے اس تبدیلی کی بے حد تعریف کی ، اور اسکے ساتھ بھی درخواست کی کہ سلطان صلاح الدین ایوبی اسکی دعوت کو قبول کریں ، سلطان صلاح الدین ایوبی نے اسکو جواب دیا کہ وی ایک آدھے میں اسکو بتاے گا کہ وہ کب ناجی کی دعوت قبول کرے گا۔ ناجی کے جانے کے بعد سلطان صلاح الدین ایوبی نے علی سے مشورہ کیا کہ وہ دعوت پر کب جاےعلی نے مشورہ دیا کہ اب وہ کسی بھی روز دعوت کو قبول کریں ۔۔


دوسرے دن سلطان صلاح الدین ایوبی نے ناجی کو بتایا کہ وہ کسی بھی رات دعوت پر آسکتا ھے، ناجی نے سلطان صلاح الدین ایوبی کو تین دن کے بعد کی دعوت دی اور بتایا کہ یہ دعوت کم اور جشن زیادہ ھوگا اور یہ جشن شہر سے دور صحرا میں مشغلوں کی میں منایا جائے گا، ناچ گانے کا انتظام ھو گا، باڈی گارڈ ز کے گھوڑے اپنا کرتب دکھاے نگے ، شمشیر زنی اور بغیر تلوار کے لڑیوں کے مقابلے ھونگے اور سلطان صلاح الدین ایوبی کو رات وہی قیام کرنا پڑے گا ، رھائش کے لیے حیمے نصب ھونگے، سلطان صلاح الدین ایوبی پروگرام کی تفصیل سنتا رھا اس نے ناچنے گانے پر اعتراض تھی کیا تھا ، ناجی نے ڈرتے اور جھجکتے ھوے کہا فوج کے بیشتر سپاھی جو مسلمان بھی یا جو ابھی نیم مسلمان سے کبھی کبھی شراب پیتے ھے، وہ شراب کے عادی تھی لیکن وہ اجازت


چاھتے ھے کہ جشن میں انھیں شراب پینے کی اجازت دی جائے " آپ ان کے کمانڈ رھوں آپ چاھیے تو ان کو اجازت دے دیے نہ چاھیں تو میں آپ پر اپنا حکم


مسلط بھی کرنا چاھتا " سلطان صلاح الدین ایوبی نے کہا سلطان صلاح الدین ایوبی کا اقبال بلند ھوں میں کون ھوتا ھوں اس کام کی اجازت دینے والا


جس کو آپ سخت نا پسند کریں ناجی نے کہا انھیں اجازت دے دیں کہ جشن کی رات ھنگامہ آرائی اور بدکاری کے سوا سب کچھ کر سکتے ھے


اگر شراب پی کر کسی نے حلہ گلہ کیا تو اس کو سخت سزادی جائے گی


سلطان صلاح الدین ایوبی نے کہا۔


یہ خبر جب سلطان صلاح الدین ایوبی کے سپاھیوں تک پہنچی کہ ناجی سلطان صلاح الدین ایوبی کے اعزاز میں جشن منعقد کر رھا ھے اور اس میں ناچ گانا بھی ھوگا شراب بھی ھوگی اور سلطان صلاح الدین ایوبی نے اس جشن کی دعوت ان سب خرافات کے باوجود بھی قبول کی ھے تو وہ ایک دوسرے کا منہ دیکھتے رھے کسی نے کہا کہ ناجی جھوٹ بولتا ھے اور دوسروں پر اپنا رعب ڈالنا چاھتا ھے اور کسی نے کہا ناجی کا سلطان صلاح الدین ایوبی پر بھی چل گیا۔ یہ رائے ناجی کے ان افسروں کو بھی پسند آی جو ناجی کے ھم نوا اور ھم پیالہ تھے ، سلطان صلاح الدین ایوبی نے چارج لیتے ھی ان کی عیش و عشرت شراب اور بدکاری حرام کر دی تھی ،سلطان صلاح الدین ایوبی نے ایسا سحت ڈسپلن رائج کیا کہ کسی کو بھی پہلے کی طرح اپنے فرایض سے کو تاھی کی جرات بھی ھوتی تھی ، وہ اس پر جوش تھے کہ نیے امیر مصر نے ان کو رات کی شراب کی اجازت دی تھی تو کل وہ بھی جو دان سب چیزوں کا رسیا ھو جائے گا، صرف علی بن سفیان تھا جسے معلوم تھا کہ سلطان نے ان سب خرافات


کی اجازت کیوں دی تھی ۔


جشن کی شام آگی، ایک تو چاندنی رات تھی صحرا کی چاندنی اتنی شفاف ھوتی ھے کہ ریت کے زرے بھی نظر آجاتے ھے، دوسرے ھزارھا مشغلوں نے وھاں کی صحرا کو دن بنایا تھا، باڈی گارڈ ز کا ہجوم تھا جو ایک و سیخ میدان کے گرد دیواروں کی طرح کھڑا تھا، ایک طرف جو مسند سلطان صلاح الدین ایوبی کے لیے بھی گئی تھی وہ کسی بھت بڑے بادشاہ کا معلوم ھوتا تھا، اسکے دائیں بائیں بڑے مہمانوں کے لیے نشتیں کبھی کی تھی ، اس وسیع و عریض تماش گاہ سے تھوڑی دور مہمانوں کے لیے نہایت خوبصورت خیمے نصب تھے ، ان سے ھٹ


کر ایک بڑا حیمہ سلطان صلاح الدین ایوبی کے لیے نصب کیا گیا تھا جہاں اسے رات بسر کرنی تھی۔ علی بن سفیان نے صبح سورج غروب ھونے سے پہلے وھاں جا کر محافظ کھڑے کر دیئے تھے ۔ جب علی بن سفیان


وھاں محافظ کھڑے کر رھا تھا تو ناجی ذکوئی کو آخری ہدایات دے رھا تھا۔ اس شام ذکوی کا سن کچھ زیاد چھی نکھر آیا تھا۔ اسکے جسم سے عطر کی ایسی بھینی بھینی خوشبو اٹھ رھی تھی۔


جس میں سحر کا تاثر تھا اس نے بال عریاں کندھوں پر پھیلا دیے تھے ۔ سفید کندھوں پر سیاہی مائل بھورے


بال زاھدوں کے نظروں کو گرفتار کرتے تھے۔ اسکا لباس اتنا باریک تھا کہ اسکے جسم کے تمام نشیب و فراز


دکھائی دیتے تھے، اسکے ھونٹوں پر قدرتی تبسم ادھ کھلی کلی کی طرح تھی ،


ناجی نے اسکو سر سے پاؤں تک دیکھا تمھارے حسن کا شاید سلطان صلاح الدین ایوبی پر اثر نہ


ھو تو اپنی زبان استعمال کرنا ، وہ سبق بھولنا نھی جو میں اتنے دنوں سے تمھیں پڑھا رھا ھوں۔ اور یہ بھی نہ بھولنا کہ اسکے پاس جا کر اسکی لونڈی نہ بن جانا۔ انجیر کا وہ پھول بن جانا جو درخت کی چھوٹی پر نظر آتا ھے مگر درخت پر چڑھ کر دیکھو تو غایب ۔ اسے اپنے قدموں میں بٹھا لینا میں تمھیں یقین دلاتا ھوں کہ تم اس پتھر کو پانی میں


تبدیل کر سکتی ھوں ۔ اس سرزمین میں قلو پطرہ نے سینر ز جیسے مرد آھن کو اپنے حسن و جوانی سے پھگلا کر مصر کے ریت میں بہاد یا قلو پطرہ تم سے زیادہ خوبصورت بھی تھی میں نے تم کو جو سبق دیا ھے وہ قلو پطرہ کی چالیں تھی ،سلطان صلاح الدین ایوبی نے ایسا سحت ڈسپلن رائج کیا کہ کسی کو بھی پہلے کی طرح اپنے فرایض سے کو تاھی کی جرات بھی ھوتی تھی ، وہ اس پر جوش تھے کہ نیے امیر مصر نے ان کو رات کی شراب کی اجازت دی تھی تو کل وہ بھی جو دان سب چیزوں کا رسیا ھو جائے گا، صرف علی بن سفیان تھا جسے معلوم تھا کہ سلطان نے ان سب خرافات


کی اجازت کیوں دی تھی ۔


جشن کی شام آگی، ایک تو چاندنی رات تھی صحرا کی چاندنی اتنی شفاف ھوتی ھے کہ ریت کے زرے بھی نظر آجاتے ھے، دوسرے ھزارھا مشغلوں نے وھاں کی صحرا کو دن بنایا تھا، باڈی گارڈ ز کا ہجوم تھا جو ایک و سیخ میدان کے گرد دیواروں کی طرح کھڑا تھا، ایک طرف جو مسند سلطان صلاح الدین ایوبی کے لیے بھی گئی تھی وہ کسی بھت بڑے بادشاہ کا معلوم ھوتا تھا، اسکے دائیں بائیں بڑے مہمانوں کے لیے نشتیں کبھی کی تھی ، اس وسیع و عریض تماش گاہ سے تھوڑی دور مہمانوں کے لیے نہایت خوبصورت خیمے نصب تھے ، ان سے ھٹ


کر ایک بڑا حیمہ سلطان صلاح الدین ایوبی کے لیے نصب کیا گیا تھا جہاں اسے رات بسر کرنی تھی۔ علی بن سفیان نے صبح سورج غروب ھونے سے پہلے وھاں جا کر محافظ کھڑے کر دیئے تھے ۔ جب علی بن سفیان


وھاں محافظ کھڑے کر رھا تھا تو ناجی ذکوئی کو آخری ہدایات دے رھا تھا۔ اس شام ذکوی کا سن کچھ زیاد چھی نکھر آیا تھا۔ اسکے جسم سے عطر کی ایسی بھینی بھینی خوشبو اٹھ رھی تھی۔


جس میں سحر کا تاثر تھا اس نے بال عریاں کندھوں پر پھیلا دیے تھے ۔ سفید کندھوں پر سیاہی مائل بھورے


بال زاھدوں کے نظروں کو گرفتار کرتے تھے۔ اسکا لباس اتنا باریک تھا کہ اسکے جسم کے تمام نشیب و فراز


دکھائی دیتے تھے، اسکے ھونٹوں پر قدرتی تبسم ادھ کھلی کلی کی طرح تھی ،


ناجی نے اسکو سر سے پاؤں تک دیکھا تمھارے حسن کا شاید سلطان صلاح الدین ایوبی پر اثر نہ


ھو تو اپنی زبان استعمال کرنا ، وہ سبق بھولنا نھی جو میں اتنے دنوں سے تمھیں پڑھا رھا ھوں۔ اور یہ بھی نہ بھولنا کہ اسکے پاس جا کر اسکی لونڈی نہ بن جانا۔ انجیر کا وہ پھول بن جانا جو درخت کی چھوٹی پر نظر آتا ھے مگر درخت پر چڑھ کر دیکھو تو غایب ۔ اسے اپنے قدموں میں بٹھا لینا میں تمھیں یقین دلاتا ھوں کہ تم اس پتھر کو پانی میں


تبدیل کر سکتی ھوں ۔ اس سرزمین میں قلو پطرہ نے سینر ز جیسے مرد آھن کو اپنے حسن و جوانی سے پھگلا کر مصر کے ریت میں بہاد یا قلو پطرہ تم سے زیادہ خوبصورت بھی تھی میں نے تم کو جو سبق دیا ھے وہ قلو پطرہ کی چالیں تھی ،عورت کی یہ چالیں کبھی نا کام نھی ھو سکتی " ناجی نے کہا۔ ذکوئی مسکرا رہی تھی اور بڑے غور سے سن رھی تھی مصر کی ریت نے ایک اور حسین قلو پطرہ کوحسین ناگن کی طرح جنم دیا تھا مصر کی تاریخ اپنے آپ کو دھرانے والی تھی


سورج غروب ھوا تو مشغلیں جل گی


سلطان صلاح الدین ایوبی گھوڑے پر سوار آگیا۔ سلطان کے آگے پیچھے دائیں بائیں اس محافظ دستے کے گھوڑے تھے جو علی بن سفیان نے منتخب کیئے تھے، اسی دستے میں سے ھی اس نے دس محافظ شام سے پہلے ھی یہاں لا کر سلطان صلاح الدین ایوبی کے خیمے کے گرد کھڑے کر دیئے تھے، سازندوں نے دف کی آواز پر استقبالیہ دھن بجائی اور صحرا امیر مصر سلطان صلاح الدین ایوبی زندہ باد کے نعروں سے گونجنے لگا ناجی نے آگے بڑھ کر استقبال کیا اور کہا آپ کے جانثار عظمت اسلام کے پاسبان آپکو بسر و چشم خوش آمدید کہتے ھے ان کی بے تابیاں اور بے قراریاں دیکھیں آپ کے اشارے پر کٹ مریں گے ۔ اور خوشامد کے


لیے اسکو جتنے الفاظ یاد آے ناجی نے کہہ دیئے۔


جو بھی سلطان صلاح الدین ایوبی اپنی شاھانہ نشست پر بیٹھا۔ سرپٹ دوڑتے گھوڑوں کی ٹاپوں کی آواز میں سنائی دینے لگی گھوڑے جب روشنی میں آے تب اس نے دیکھا کہ چار گھوڑے دائیں سے اور 4 بائیں سے آرھے تھے ھر ایک پر ایک ایک سوار تھا اور ان کے پاس ھتیار بھی تھے وہ ایک دوسرے کے آمنے سامنے آرھے تھے صاف ظاہر تھا کہ وہ ٹکرا جائینگے کسی کو معلوم تھی تھا کہ وہ کیا کرینگے وہ ایک دوسرے کے قریب آے تو سوار رکابوں میں پاؤں جمائے کھڑے ھوے پھر انھوں نے لگا میں ایک ایک ھاتھ میں تھام لی اور دوسرے بازو پھیلا دیئے دونوں اطرف کے گھوڑے بلکل آمنے سامنے آگئے اور سواروں کی دونوں پارٹیاں ایک دوسرے سے الجھ گئی۔ سواروں نے ایک دوسرے کو پکڑنے اور گرانے کی کوشیش کی سب گھوڑے جب آگے نکل گیے تو دو سوار جو گھوڑوں سے گر گئے تھے ریت پر قلابازیاں کھا رھے تھے، ایک طرف کے ایک سوار نے دوسری طرف کے ایک سوار کو ایک بازو میں جھکڑ کر اسے گھوڑے سے اٹھا لیا تھا اور اسے اپنے گھوڑوں پر لاد کر لے جا رھا تھے، حجوم نے اس قدر شور برپا کیا تھا کہ اپنی آواز خود کو سنائی تھی دے رھی تھی ۔ یہ سواز


اندھیرے میں غائب ھوے تو دونوں اطرف سے اور چار چار گھوڑ سوار آئے اور مقابلہ ھوا اس طرح آٹھ مقابلے

ھوے اور اسکے بعد شتر سوار آے پھر گھوڑ سواروں اور شتر سواروں نے کئی کرتب دکھاے ۔ اسکے بعد تیغ زنیاور بغیر ہتیاروں کے لڑائی کے مظاھرے ھوے جن مین کی ایک سپاھی زخمی ھوے سلطان صلاح الدین ایوبی شجاعت اور بہادری کے ان مقابلوں میں جذب ھو کر رہ گیا تھا اسے ایسے بھی بہادر فوج کی ضرورت تھی سلطان صلاح الدین ایوبی نے علی بن سفیان کے کان میں کہا اگر اس فوج میں اسلامی جذبہ بھی ھوں میں


اسی فوج سے ھی صلیبیوں کو گھٹنوں بٹھا سکتا ھوں"


علی بن سفیان نے وھی مشورہ دیا جو اس نے پہلے دیا تھا


اگر ناجی سے کمان لی جائے تو جذ بہ بھی پیدا کیا جا سکتا ھے علی بن سفیان نے کہا مگر سلطان صلاح الدین ایوبی ناجی جیسے سالار کو سبکدوش نھی کرنا چاھتا تھا بلکہ سدھارکر را چق پر لانا چاھتا تھا۔ وہ اس جشن میں اپنی آنکھوں یہی دیکھنے آیا تھا کہ یہ فوج اطلاقی کے لحاظ سے کیسی ھے اس کو ناجی کے اس بات سے بھی مایوسی ھوی تھی کہ ناجی کے کمانڈر اور سپاھی شراب پینا چاھتے ھے اور ناچ گانا بھی ھوگا سلطان صلاح الدین ایوبی نے اس درخواست کی منظوری صرف اس وجہ سے دی تھی کہ وہ دیکھنا چاھتا تھا کہ یہ فوج کسی حد تک عیش و عشرت


میں ڈوبا ھوا ھے۔


بهادری شجاعت شاهسواری تیغ زنی تلوار زنی میں تو یہ فوج جنگی معیار پر پورا اتر تا تھا لیکن مگر کھانے کا وقت آیا تو یہ فوج بد تمیزیوں بلا نوشوں او ر ھنگامہ پرور لوگوں کا حجوم بن گی کھانے کا انتظام وسیع و عریض


میدان میں کیا گیا تھا اور ان سے زرا دور سلطان صلاح الدین ایوبی اور دیگر مہمانون کے کھانے کا انتظام کیا گیا تھا سینکڑون سالم دینے اور بکرے اونٹوں کی سالم رانیں اور ھزارون مرغ روسٹ کیے گئے تھے دیگر لوازمات کا کوئی شمار نہ تھا اور سپاھیوں کے سامنے شراب کے چھوٹے چھوٹے مشکیزے اور صراحیاں رکھ دی گئی تھی ، سپاھی کھانے اور شراب پر ٹوٹ پڑے اور غٹاغٹ شراب چڑھانے لگے اور معرکہ آرائی ھونے لگی سلطان صلاح الدین ایوبی یہ منظر دیکھ رھا تھا اور حاموش تھا اسکے چہرے پوکوی تاثر نہ تھا جو یہ ظاھر کرتا کہ وہ کیا سوچ رھا ھے اس نے ناجی سے صرف اتنا کہا پچاس ہزار فوج میں آپ نے یہ آدمی کس طرح منتخب کیئے کیا


یہ آپکے بدترین سپاھی ھے؟"


وو ر تھی امیر مصر ! یہ دوھزار عسکری میرے بہترین سپاھی ھے آپ نے انکے مظاھرے دیکھے ان کی بہادری دیکھی ھے میدان جنگ میں جس جانبازی کا مظاہرہ کرینگے وہ آپکی حیران کر دیگی آپ انکیبد تمیزی کو نہ دکھیں یہ آپکے اشارے پر جانیں قربان کر دینگے میں انھیں کبھی کبھی تصیلی چھٹی دے دیا کرتا ھوں کہ مرنے سے پہلے دنیا کے رنگ و بو کا پورا مزہ اٹھا لیں ناجی نے غلامانہ لہجے میں کہا


سلطان صلاح الدین ایوبی نے اس استدلال کے جواب میں کچھ بھی کہا ناجی جب دوسرے مہمانوں کی طرف متوجہ ھوا تو سلطان صلاح الدین ایوبی نے علی بن سفیان سے کہا میں جو دیکھنا چاھتا تھا وہ دیکھ لیا ہے یہ سوڈانی شراب اور ھنگامہ آرائی کے عادی ھے، تم کہتے ھوں ان میں جذب بھی ھے میں دیکھ رھا ھوں ان میں کردار بھی تھی ھے ۔ اس فوج کو اگر تم لڑنے کے لیے میدان جنگ میں لے گیے تو یہ لڑنے کی ۔ بجاے اپنی جان بچانے کی فکر کرے گی اور مال غنیمت لو تے گی اور مفتوح کی عورتوں کے ساتھ وحشیانہ سلوک


کرے گی"


اسکا علاج یہ ھے کہ آپ نے جو فوج مصر کے مختلف خطوں سے بھرتی کی ھے اسکو ناجی کے 50 هزار فوج میں مدغم کرلیں برے سپاھی اچھے سپاھیوں کے ساتھ مل کر اپنی عادتیں بدل دیا کرتے ھے علی بن سفیان نے کہا۔ سلطان صلاح الدین ایوبی مسکرایا اور کہا تم یقینا میرے دل کا راز جانتے ھوں میرا


منصوبہ یہی ھے جو میں ابھی تمھیں تھی بتانا چاہ رھا تھا تم اسکا کر کسی سے بھی کرنا


علی بن سفیان میں یہی وصف تھی کہ وہ دوسرے کے دل کا راز جان لیتا تھا اور غیر معمولی طور پر زمین تھا وہ کچھ اور کہنے ھی لگا تھا کہ ان کے سامنے شغلیں روشن ھوی ، زمین پر بیش قیمت قالین بچھے ھوے تھے ، شہنائی اور سارنگ کا ایسا میٹھا نغمہ ابھرا کہ مہمانوں پر سناٹا چھا گیا ایک طرف سے ناچنے والیوں کی قطار نمودار ھوی ہیں لڑکیاں ایسے باریک اور نفیس لباس میں چلی آدھی تھی کہ ان کے جسموں کا انگ انگ نظر آرھا تھا ھر ایک کالباس بار یک چغہ ساتھا جو شانوں سی محنتوں تک تھا ان کے بال کھولے ھوے تھے اور اسی ریشم کا حصہ نظر آرھے تھے جس کا انھوں نے لباس پہنا ھوا تھا صحرا کی ملکی ملکی حوا سے اور لڑکیوں کی کے چال سے یہ ڈھیلا ڈھالا لباس ھلتا تھا تو یوں لگتا تھا جیسے بھولدار پودوں کی ڈالیاں ھوا میں تیرتی ھوئی آدھی ھوں ھر ایک کے لباس کا رنگ جدا تھا ھر ایک کی شکل وصورت ایک دوسرے سے مختلف تھی لیکن جس جسم کی جلک میں ساری ایک ھی جیسی تھی انکے مرمریں باز و عریاں تھے وہ چلتی آرہی تھی لیکن قدم اٹھتے نظر بھی آدھی تھی وہ چھوا کی لہروں کی ماند تھی وہ نیم دائرے میں ھو کر رہو گی سلطان صلاح الدین ایوبی کی طرف منہ کر تنظیم کے لیے جھکیسب کے بال سرک کر شانوں پر آگے سازندوں نے ان ریشمی بالوں اور جسموں کے جادو میں طلسم پیدا کر دیا تھا دو سیاہ فام دیو هیکل حبشی جن کے کمر کے گرد چیتوں کی کالی تھی ایک بڑا سا ٹو کرہ اٹھاے تیز تیز قدم چلتے آے اور ٹو کرانیم دائرے کے سامنے رکھ دیا ساز پیروں کے بین کی دھن بجانے لگے جبشی مست سانڈوں کی طرح پھنکارتے ھوے غایب ھوے ٹوکری میں سے ایک بڑی کلی اٹھی اور پھول کی طرح کھل گئی ، اس پھول میں سے ایک لڑکی کا چہرہ نمودار ھوا اور پھر وہ اوپر کو ٹھنے لگی یوں لگنے لگا جیسے یہ سرح بادلوں میں ایک چاند نکل رھا ھوں یہ لڑکی اس دنیا کی معلوم نھی ھوتی تھی اسکی مسکراہٹ بھی عارضی تھی تھی اسکے آنکھوں کی چمک بھی مصر کی کیسی لڑکی کے آنکھوں کی چمک بھی لگتی تھی اور جب لڑکی نے پھولہ کی چوڑی پتیوں میں سے باھر قدم رکھا تو اسکے جسم کی لچک نے تماشیتوں کو مسحور کر دیا علی بن سفیان نے سلطان صلاح الدین ایوبی کی طرف دیکھا اسکے ھونٹوں پر مسکراہٹ تھی۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے اسکے کانوں میں میں کہا علی ۔۔ مجھے توقع تھی تھی کہ


یہ اتنی خوبصورت ھوگی


ناجی نے سلطان صلاح الدین ایوبی کے پاس آکر کہا ” امیر مصر کا اقبال ھوں ۔۔۔ اس لڑکی کا نام زکوئی ھے اس میں نے آپ کی حاطر اسکندریہ سے بلوایا ہے، یہ پیشہ ور رقص بھی یہ طوایف بھی تھی اسکو رقص سے پیار ھے شوقیہ ناچتی ھے کسی محفل میں بھی جاتی میں اسکے باپ کو جانتا ھون ساحل پر مچھلیوں کا کارو بار کرتا ہے ۔ یہ لڑکی آپکی عقیدت مند ھے آپکو پیغمبر مانتی ھے میں اتفاق سے اسکے گھر اس کے باپ سے ملنے گیا تو اس لڑکی نے استدعا کی کہ سنا ھے سلطان صلاح الدین ایوبی امیر مصر بن کر آے ھے اللہ کے نام پر مجھے اس سے ملوا دور میرے پاس اپنی جان اور رقص کے سوا کچھ بھی تھی جو میں اس عظیم ہستی کے پاؤں میں پیش کر سکوں ۔ ۔ قابل صد احترام امیر میں نے آپ سے رقص اور ناچ کی اجازت اس لیے مانگی تھی کہ میں اس


لڑکی کو آپکے حضور پیش کرنا چاھتا تھا "


" کیا آپ نے اسے بتایا تھا کہ میں کسی لڑکی کو رقص یا عریانی کی حالت میں اپنے سامنے بھی دیکھ سکتا یہ لڑکیاں جسے آپ ملبوس لاے سے بلکل منگی ھے سلطان صلاح الدین ایوبی نے کہا۔ " عالی مقام میں نے بتایا تھا کہ امیر مصر رقص کو ناپسند کرتے تھے لیکن یہ کہتی تھی کہ امیر مصر میرا رقص پسند کرینگے کیوں کہ اس میں گناہ کی دعوت بھی یہ ایک با عصمت لڑکی کا رقص ھوگا میں ایوبی کے حضور اپنا جسم بھی اپنا رقص پیش کرونگی اگر میںمر دھوتی تو سلطان کی جان کی حفاظت کے لیے محافظ دستے میں شام ھو جاتی" ناجی نے کھسیا نہ ھو کر کہا آپ کیا کہنا چاھتے ھے اس لڑکی کو اپنے پاس بلا کر حراج تحسین پیش کرو کہ تم ھزاروں لوگون " کے سامنے اپنا جسم ننگا کر کہ بھت اچھا نا چتی ھوں؟ اسے اس پر شاباش دو کہ تم نے مردوں کے جنسی جذبات


بھڑ کانے میں خوب مہارت حاصل کی ھے ۔۔؟ سلطان صلاح الدین ایوبی نے پوچھا۔۔۔ " ” تھی امیر مصر میں اسے اس عودے پر یہاں لایا ھوں کہ آپ سے شرف باریابی بخش گے یہ


بڑی دور سے اسی امید پر آی ھے، زرا دیکھیئے اسے ۔ اسکی رقص میں پیشہ وارنہ تا ریخی خود پردگی ھے۔۔۔ دیکھیئے وہ آپکو کیسی نظروں سے دیکھ رھی ھے بیشک عبادت صرف اللہ کی کیجاتی ہے لیکن یہ رقص کی اداؤں سے عقیدت سے آپ کی عبادت کر رھی ھے، آپ اسے اپنے جیسے میں اندر آنے کی اجازت دیں تھوڑی سی دیر کے لیے ۔ اسے مستقبل کی وہ ماں سمجھے جس کی کوکھ سے اسلام کے جانباز پیدا ھو نگے یہ اپنے بچوں کو فخر سے بتایا کرے گی کہ میں سلطان صلاح الدین ایوبی سے تنہائی میں باتیں کرنے کا شرف حاصل کیا تھا ” ناجی نے نہایت پر اثر اور خوشامدی لہجے میں سلطان صلاح الدین ایوبی سے منوالیا کہ یہ لڑکی جسے ناجی نے ایک بردہ فروش سے خریدا تھا شریف باپ کی با عصمت بیٹی ھے ناجی نے سلطان صلاح الدین ایوبی سے کہلوالیا کہ اچھ اسے میرے خیمے میں بھیج دینا زکوئی نہایت آھستہ آھستہ جسم کو بل دیتی اور بار بار سلطان صلاح الدین ایوبی کی طرف دیکھ کر مسکر اچھی تھی، باقی لڑکیاں تلیوں کی طرح جسے اسکے آس پاس اڑ رھی تھی ، یہ اچھل کو دوالا رقص


تھی تھا شغلوں کی روشنی میں کبھی تو یوں لگتا تھا جیسے ھلکے نیلے شفاف پانی میں جل پر یاں تیر رھی ھو چاندنی کا اپنا ایک تاثر تھا سلطان صلاح الدین ایوبی کے مطابق کوئی بھی بتا سکتا تھا کہ وہ بیٹھ کر کیا سوچ رھا تھا نا جی کے سپاھی جو شراب پی کر ھنگامہ کر رھے تھے وہ بھی جیسے مر گیے گیے تھے، زمین اور آسمان پر وجد طاری تھا نا جی اپنی کامیابی پر بھت مسرور تھا اور رات گزرتی جارہی تھی ۔۔۔******


نصف شب کے بعد سلطان صلاح الدین ایوبی اپنے جیسے میں داخل ھوا جو ناجی نے نصب کیا تھا اندر اس نے الین بچھا دیئے تھے پلنگ پر چیتے کی کال کی مانند پلنگ پوش تھا فانوس جو رکھوایا تھا اسکی ملکی نیلی روشنی صحر کی شفاف چاندنی کی ماند تھی اور اندر کی فضا عطر بیز تھی جیسے کے اندر ریشمی پر دے آویزاں تھے ناجی جسے

Follow on Facebook 

https://www.facebook.com/ikramullah.khanyousafzai.9?mibextid=ZbWKwL


What's app channel 

Follow the Ikram Ullah Khan Yousafzai channel on WhatsApp: https://whatsapp.com/channel/0029Va8GHChFSAsy6BzvSS1N


Follow on Twitter

https://x.com/Yousafzai66601?s=09


Follow on Instagram

https://www.instagram.com/ikramullahkhan750?igsh=MXJrMWh3Z252OWg4cg==


Follow on threads

https://www.threads.net/@ikramullahkhan750

Subscribe to our  more videos on historical and Islamic events and other topicshttps://www.youtube.com/@VoiceofPakhtuns

Comments

Popular posts from this blog

یادداشت کیا ہے اور کیسے کام کرتی ہے؟

یادداشت کیا ہے اور کیسے کام کرتی ہے؟  میموری کیا ہے اور یہ کیسے کام کرتی ہے؟  ہمارے ذہن میں یادداشت memory کے بننے کا عمل انتہائی حیرت انگیز اور بے حد دلچسپ ہے۔ اس پر ایک گہری نظر نہ ڈالنا نا انصافی ہوگی ۔  ہمارا دماغ ایک ریکارڈنگ ڈیوائس کے طور پر بھی کام کرتا ہے۔ اسے Recording‏ ‏cognitive بھی کہہ سکتے ہیں طبی اصطلاح میں اسے Process of Mind‏ ‏process کہا جاتا ہے۔ ویسے تو یہ بہت ہی پیچیدہ عمل ہے مگر موضوع کے اعتبار سے مطلب کی بات یہ ہے کہ ہمارا ذہن حواس خمسہ سے ملنی والی ایک ایک خبر کو، ہر ایک احساس ہر جذبے کو ریکارڈ کر رہا ہے محفوظ کر رہا ہے اور ان احساسات و جذبات کو معلومات data‏  میں تبدیل کر رہا ہے۔  یہ بے حد تیز رفتار عمل ہے کہ ہمیں اس کا احساس تک نہیں ہوتا کہ سب محفوظ کیا جارہا ہے۔ سارا دن جو مشاہدات حاصل ہوتے ہیں خواہ وہ دیکھنے سے ہوں ، چکھنے سے تعلق رکھتے ہوں ، سونگھنے سے عمل میں آئیں، جو کچھ دیکھا سنا ہو اور جو بھی محسوس کیا ہو وہ عارضییادداشت short term memory کی شکل میں محفوظ کیا جاتا ہے اور رات کو نیند کے دوران غیر ضروری یادیں memories ختم delete کر د...

قادیانی ایجنٹ عمران نیازی کی کرطوت

 https://a.co/d/3npI4rg جولوگ کہتےہیں کہ عمران نیازی توبہت اچھا آدمی تھاآج یہ بھی قوم کےسامنےآگیاہےکہ آج وفاق المدارس کےصدرمفتی تقی عثمانی صاحب اور قاری حنیف جالندھری صاحب نےمولنافضل الرحمان صاحب کی معیت میں وزیراعظم پاکستان شہبازشریف سےملاقات کی۔جن نکات پربات پربات ہوٸ آپ کواندازہ ہوجاٸگاکہ عمران نیازی مدارس کیلۓکیاکیاپریشانیاں کھڑی کرگیاہے۔سب سےپہلےمدارس کےبینک اکاٶنٹ بندکردٸےتھےجو ابھی تک بندپڑےہیں۔نۓمدارس کی رجسٹریشن بندکی ہوٸ تھی کہ کوٸ نیامدرسہ نہیں بناۓگاتقریباآج علمانے12نکات وزیراعظم شہبازشریف کےسامنےرکھےہیں کہ انکوفی الفور حل کیاجاۓ۔اب بھی یوتھی بولیں گےکہ عمران نیازی اسلام کاٹھیکدار تھا۔جسکو یقین نہ آۓ وہ قاری حنیف جالندھری صاحب کایہ آڈیوپیغام سن لےجو انہوں نےمدارس کےعلمإ کوبھیجاہے۔ <script type='text/javascript' src='//pl19722811.highrevenuegate.com /ca/ad/cf/caadcfb1020690554208b1c658527569.js'></script> https://www.highrevenuegate.com/fjnc7zsbq?key=65daa712736ff3f3ba97ed9dd1c7c4a5

All-in-One Smart Home Gym, Smart Fitness Trainer Equipment, Total Body Resistance Training Machine, Strength Training Machine

  About this item All-in-One Smart Home Gym:Speediance is revolutionizing the way you work out by delivering all the benefits of the gym straight to your home. Our state-of-the-art machine combines cardio and strength training so you can achieve a full-body workout without leaving your living room. High-Performance Engines:Speediance’s digital weight system provides convenience and reliability. Limited Space, Unlimited Possibility:Speediance provides up to 220 lbs of adaptive resistance, 630+ moves, 230+ classes, and dynamic weight modes for unparalleled full-body training. With Freelift and partner mode, you can customize your workout experience like never before. Plus, enjoy the convenience of cardio and strength training in one machine, all while taking up minimal space in your home. Take Your Cardio up a Notch:Elevate your cardio training with Speediance's innovative Ski Mode. With two ski handles and 10 customizable height settings, this mode transforms your workout into a dyn...