Skip to main content

Posts

Showing posts with the label . happiness . Peace of mind . king . life . Philosophy • The story . Ethics . wealth . poverty . human being . spiritual . religious.

✍️‏ہر شخص اپنے ایمان کا پہلا گواہ خود ہے اسکا دل کتنا میلا ہے اور کتنا پارسا ہے وہ بہتر جانتا ہے۔.

✍️‏ہر شخص اپنے ایمان کا پہلا گواہ خود ہے اسکا دل کتنا میلا ہے اور کتنا پارسا ہے وہ بہتر جانتا ہے۔. *یہ ایک بہت ہی گہرا اور معنی خیز قول ہے۔** اس کا مطلب یہ ہے کہ: * **ہر فرد اپنی ذات کا سب سے بڑا جاننے والا ہے۔** اس کی روح کی گہرائیوں میں کیا چل رہا ہے، اس کے دل میں کیا خیالات ہیں، یہ سب کچھ صرف وہی جان سکتا ہے۔ * **ہر شخص اپنی نیک اور بد اعمالوں کا گواہ ہے۔** اس نے زندگی میں کیا کیا ہے، اس نے کس طرح کے فیصلے کیے ہیں، یہ سب کچھ اس کے ضمیر پر نقش ہو جاتا ہے۔ * **ایمان کا دارومدار دل کی پاکیزگی پر ہے۔** ایک شخص ظاہری طور پر کتنا ہی مومن کیوں نہ لگے، اگر اس کا دل میلا ہے تو اس کا ایمان کمزور ہے۔ * **ہر شخص کو اپنی اصلاح کا ذمہ دار خود بننا چاہیے۔** اگر ہم اپنی اندرونی دنیا کو بہتر بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی اصلاح کے لیے کوشش کرنی ہوگی۔ **اس قول سے ہم یہ سبق لے سکتے ہیں کہ:** * ہمیں اپنے اندرونی نفس کی آواز کو سننا چاہیے۔ * ہمیں اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنا چاہیے اور ان سے سیکھنا چاہیے۔ * ہمیں اپنی زندگی میں اخلاقی اقدار کو اہمیت دینی چاہیے۔ * ہمیں اپنی اصلاح کے لیے مسلسل کوشش کرتی رہنی چاہ...

ایک دینی طالب علم کا واقعہ

شیخ القرآن مولانا مفتی محمد زرولی خان صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے  مدارس کے طلبہ بہت پاک مخلوق ہیں ایک دن ہمارے مدرسے میں ایک طالب کو شرارت پر میں نے سزا دی تو کچھ دیر بعد میرے ہاتھ نے حرکت کرنا چھوڑ دیا اور مردہ ہوا  میں نے ڈاکٹر کے پاس جا کر چیک اپ کروایا تو چیک کرنے کے بعد ڈاکٹر نے کہا کہ حضرت یہ ہاتھ پہلے کام کرتا تھا اس کی تو ساری رگیں خشک ہیں ایسا لگتا ھے کہ اس ہاتھ میں کبھی جان تھی ہی نہیں ۔ مفتی محمد زرولی خان صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں میں ڈاکٹر کے کلینک سے سیدھا مدرسے آیا اور اُس طالب علم کو بلایا وہ ڈرتے ڈرتے آیا کہ پھر کیا ہوا ھے جب قریب آیا تو میں نے انہیں سامنے بیٹھا کر کہا کہ ہم انسان ہیں یہ پیمانہ تو اللہ تعالیٰ کو معلوم ھے کہ کس شرارت کی کتنی تک سزا جائز ھے ، یہ پیمانہ تو ہمارے پاس نہیں ھے آپ کو مارتے وقت شاید مجھ سے زیادتی ہوئی ھے آپ مجھے معاف فرمائیں اور میرے ہاتھ کو دَم کریں۔ مفتی صاحب نے فرمایا کہ طالب علم زار و قطار رو رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ حضرت ایسا نہ کہیں ۔۔۔۔آپ ہمارے شیخ ہیں ۔ 

ایک استانی کہتی ہیں

 ایک استانی کہتی ہیں، "میں کلاس میں داخل ہوئی اور پیچھے سے دروازہ بند کر لیا۔ میں نے فیصلہ کیا کہ آج اپنا سارا غصہ بچوں پر نکالوں گی۔ واقعی، جس بچے نے ہوم ورک نہیں کیا تھا، اسے پکڑا اور مارا! ایک بچے کو میز پر سوئے ہوئے پایا، اس کا بازو پکڑا اور کہا: "تمہارا ہوم ورک کہاں ہے؟" وہ بچہ ڈر کے پیچھے ہٹ گیا اور لرزتے ہوئے بولا بھول گیا ہوں مجھے معاف کر دیں میں نے اسے پکڑا اور اپنے سارے غصے اور وہ دباؤ، جو میرے شوہر کی وجہ سے تھا، اس پر نکال دیا۔ پھر میں نے ایک بچے کو کھڑا پایا، وہ میرے قریب آیا، میرا دامن کھینچتے ہوئے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ جھک کر اس کی بات سنوں۔ میں غصے سے مڑی، جھکی، اور کہا: "ہاں، بولو، کیا ہے؟" وہ مسکرا کر بڑی معصومیت سے کہتا ہے: "کیا ہم کلاس سے باہر بات کر سکتے ہیں؟ یہ بہت ضروری ہے۔" میں نے اسے بے صبری سے دیکھا اور سوچا کہ ضرور کوئی معمولی بات ہوگی، مثلاً یہ کہ کسی ساتھی نے اس کا پین چوری کر لیا ہوگا۔ لیکن جب میں نے اس کی بات سنی تو میں اس کی ذہانت سے حیرت زدہ رہ گئی۔ اس کے پاس بے شمار تربیتی معلومات تھیں۔ وہ ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ بولا:...

برکت اور بے برکتی کے اسباب

 برکت اور بے برکتی کے اسباب مال کی بے جامحبت، جمع کرنے کی ہوس اور اس پر اترانا تو بے شک بہت بڑی برائی ہے اور اسلامی زندگی میں اس کا کوئی جواز نہیں ہے، لیکن اچھے کاموں میں خرچ کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ حلال مال کمانا ایک پسندیدہ کام ہے، تاکہ معاشرے میں غربت اور بے روز گاری کا خاتمہ ممکن ہو سکے۔ آج ہم اپنے مسائل کے حل کے لیے مشکل ترین دنیوی ذرائع استعمال کرنے کے لیے تو تیار ہیں، مگر الله تعالیٰ اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کے عطا کردہ روزی میں برکت کے آسان ذرائع کی طرف ہماری توجہ نہیں، یہ افسوس کا مقام ہے۔ گھمبیر معاشی ومعاشرتی مسائل نے لوگوں کو بے حال کر دیا ہے۔ شاید کوئی گھر ایسا ہو جہاں حالات کا رونا نہ رویا جاتا ہو اور بے روز گاری وتنگ دستی تو گویا ایک بین الاقوامی مسئلہ بن چکا ہے۔ رزق میں برکت حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے رزق میں بے برکتی کے اسباب تلاش کیے جائیں ،تاکہ رزق میں بے برکتی کے اصل حقائق تک رسائی ہو۔ رزق کی بے قدری اور بے حرمتی سے کون سا گھر خالی ہے ، بنگلے میں رہنے والے ارب پتی سے لے کر جھونپڑی میں رہنے والے مزدور ومحنت کش تک سب اس حوالے سے غفلت اور بے احتی...

حسد کی جڑ اور نفسیاتی اثرات*

 *حسد کی جڑ اور نفسیاتی اثرات*  یاد رکھیں انسان میں خود کو دوسروں کے ساتھ موازنہ کرنے کا رجحان ایک فطری بات ہے، لیکِن اس فطری خصلت کا استعمال کہاں کرنا ہے کہاں نہیں اسکا علم ضروری ہے  اگر اسکا استعمال درست ہو تو اسے رشک کہتے ہیں  اور اگر یہ غلط استعمال ہو جائے تو اکثر بے قابو ہو جاتا ہے پھر پیدا ہوتی ہے ایک خطرناک اخلاقی بیماری                                     حسد حسد ایک جذباتی اور نفسیاتی مسئلہ ہے، جو نہ صرف فرد کے اندرونی سکون کو متاثر کرتا ہے بلکہ اس کے تعلقات اور ترقی پر بھی منفی اثر ڈالتا ہے۔ یہی موازنہ اس کے بنیادی اسباب میں سے ایک ہے، اور بچوں میں اس کیفیت کے پیدا ہونے میں والدین کا کردار بھی غیرمعمولی طور پر اہم ہے۔ جب ایک فرد اپنی زندگی، کامیابیوں اور نعمتوں کا موازنہ دوسروں سے کرتا ہے، تو اسے اپنی حاصل شدہ چیزیں کمتر اور حقیر محسوس ہونے لگتی ہیں۔ یہ کیفیت حسرت میں بدل جاتی ہے، اور اگر یہ حسرت طویل عرصے تک برقرار رہے، تو حسد کا روپ دھار لیتی ہے۔   نف...

اپنی زندگی کو کسی کے لیے عیاں نہ کریں

 اپنی زندگی کو کسی کے لیے عیاں نہ کریں، حسد ہمیشہ وہاں سے آتا ہے جہاں لوگ آپ کے گھر آ کر آپ کے حالات اور دولت کو جانتے ہیں۔ کوئی آپ کو نقصان نہیں پہنچا سکتا جب تک وہ آپ کے گھر کی تفصیلات نہ جانتا ہو۔ کوئی بھی آپ کے منصوبوں کو ناکام نہیں بنا سکتا جب تک آپ خود اسے اپنا راز نہ بتائیں۔ آپ کا راز آپ کا قیدی ہے، لیکن جیسے ہی آپ اسے کسی کے سامنے ظاہر کرتے ہیں، آپ خود اس کے قیدی بن جاتے ہیں۔ بعض اوقات حسد کرنے والے لوگ مشورے کے پردے میں آپ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ کوئی آپ کے خاندان کے لیے سازش نہیں کر سکتا جب تک وہ آپ کے گھر میں کثرت سے آتا جاتا نہ ہو۔ کوئی بھی آپ کی کمزوریوں کو نہیں جان سکتا جب تک وہ آپ کے قریب نہ رہا ہو۔ ہر عزیز کے لیے بھی ایک حد مقرر کریں۔ یہ توقع نہ کریں کہ کوئی آپ کے راز کو محفوظ رکھے گا، جبکہ آپ خود اسے چھپا نہ سکے۔ یہاں میرا مطلب یہ نہیں کہ آپ لوگوں سے رابطہ ختم کر دیں۔ نہیں، ہرگز نہیں۔ بلکہ یہ کہ آپ حدود کا تعین کریں اور ان حدود کو عبور نہ ہونے دیں۔ اپنی زندگی کو کسی کے لیے مکمل طور پر ظاہر نہ کریں، کیونکہ لوگ کب بدل جائیں، یہ آپ کو معلوم نہیں ہوتا۔ جو لو...

یہ سعودی عرب کے دارالحکومت " ریاض " شہر کا واقعہ ہے

یہ نہر ہی تو ہے___________!!! یہ سعودی عرب کے دارالحکومت " ریاض " شہر کا واقعہ ہے۔ ایک نیک خاتون رمضان المبارک کے مہینے میں ہر روز افطار سے پہلے تمام بچوں کو اکٹھا کرتی اور ان سے کہتی کہ جو کچھ میں کہوں اور کروں، تم بھی وہی کہنا اور کرنا، پھر وہ دعا کیلئے ہاتھ اٹھاتی اور کہتی... " ہمیں اپنا گھر عطا کر جس کے آگے ایک نہر ہو۔" تمام بچے بھی ہاتھ اٹھاتے اور کہتے"الٰہی ہمیں اپنا گھر عطا کر جس کے آگے نہر ہو۔" اس خاتون کا شوہر ہنستا اور کہتا:" اپنے گھر کی بات تو سمجھ آتی ہے لیکن یہ گھر کے آگے نہر ہونے کا کیا مطلب ؟ اس صحرائی علاقے میں نہر کہاں سے آئے گی؟" بیوی اسے جواب دیتی :" آپ کو اس سے کیا غرض ! یہ ہمارا اور اللّٰہ تعالٰی کا معاملہ ہے۔ آپ بیچ میں مت آئیے۔" ....وہ رب تو کہتا ہے:" مجھ سے مانگو ، میں عطا کرونگا۔" ہم تو جو جی میں آئے گا ، مانگیں گے، اور بار بار مانگیں گے۔" غرض وہ اسی طرح بچوں کو اکھٹا کرتی اور خود بھی دعا کرتی اور بچوں سے بھی کرواتی..رمضان المبارک بیت گیا۔ ایک دن اس کے شوہر نے کہا" اب بتاؤ ، کہاں ہے تمہ...

: Pledge of Allegiance upon listening and willingly obeying

صحابہ کرام ؓ کی بیعت  بات سننے اور خوشی سے ماننے پر بیعت ہونا حضرت عبیداللہ بن رافع ؓ فرماتے ہیں کہ شراب کے چند مشکیزے کہیں سے آئے۔ حضرت عُبادہ بن صامت ؓ نے جا کر اُن تمام مشکیزوں کو پھاڑ دیا اور کہا کہ ہم لوگ حضور ﷺ سے اس بات پر بیعت ہوئے کہ دل چاہے یا نہ چاہے ہر حال میں بات سنا کریں گے اور مانا کریں گے، تنگی اور وسعت دونوں حالتوں میں (اللہ کی راہ میں ) خرچ کریں گے، اَمر بالمعروف اور نہی عن المنکر کریں گے اور ہم اللہ کی خو شنودی کی بات کہیں گے، اللہ کے بارے میں کسی کی ملامت سے نہیں ڈریں گے۔ اور جب حضور ﷺ ہمارے ہاں یثرِب تشریف لائیں گے تو ہم آپ کی مدد کریں گے اور اُن تمام چیزوں سے آپ کی حفاظت کریں گے جن سے ہم اپنی اور اپنے بیوی بچوں کی حفاظت کرتے ہیں ، اور ہمیں (ان کاموں کے بدلے میں ) جنت ملے گی۔ یہ وہ بیعت ہے جس پر ہم حضور ﷺ سے بیعت ہوئے۔ حضرت عُبادہ ؓ فرماتے ہیں کہ ہم لوگوں نے حضور ﷺ سے جنگ پر بیعت کی کہ تنگی اور وسعت میں دل چاہے یا نہ چاہے اور چاہے ہم پر دوسروں کو تر جیح دی جائے، ہر حال میں ہم بات سنیں گی اور مانیں گے ۔امیر سے اِمارت کے بارے میں جھگڑا نہیں کریں گے۔ جہاں بھی ہوں ...