*حسد کی جڑ اور نفسیاتی اثرات*
یاد رکھیں انسان میں خود کو دوسروں کے ساتھ موازنہ کرنے کا رجحان ایک فطری بات ہے، لیکِن اس فطری خصلت کا استعمال کہاں کرنا ہے کہاں نہیں اسکا علم ضروری ہے
اگر اسکا استعمال درست ہو تو اسے رشک کہتے ہیں
اور اگر یہ غلط استعمال ہو جائے تو اکثر بے قابو ہو جاتا ہے پھر پیدا ہوتی ہے ایک خطرناک اخلاقی بیماری
حسد
حسد ایک جذباتی اور نفسیاتی مسئلہ ہے، جو نہ صرف فرد کے اندرونی سکون کو متاثر کرتا ہے بلکہ اس کے تعلقات اور ترقی پر بھی منفی اثر ڈالتا ہے۔
یہی موازنہ اس کے بنیادی اسباب میں سے ایک ہے، اور بچوں میں اس کیفیت کے پیدا ہونے میں والدین کا کردار بھی غیرمعمولی طور پر اہم ہے۔
جب ایک فرد اپنی زندگی، کامیابیوں اور نعمتوں کا موازنہ دوسروں سے کرتا ہے، تو اسے اپنی حاصل شدہ چیزیں کمتر اور حقیر محسوس ہونے لگتی ہیں۔ یہ کیفیت حسرت میں بدل جاتی ہے، اور اگر یہ حسرت طویل عرصے تک برقرار رہے، تو حسد کا روپ دھار لیتی ہے۔
نفسیات دانوں کے مطابق، موازنہ کا یہ رجحان انسان کی خود اعتمادی کو متاثر کرتا ہے اور اسے اپنی زندگی کے پہلوؤں سے غیرمطمئن بنا دیتا ہے۔ معروف ماہر نفسیات لین فسٹینجر نے اپنی "سوشل کمپیریزن تھیوری" میں بتایا کہ انسان اپنی کارکردگی اور خوشحالی کو جانچنے کے لیے دوسروں سے موازنہ کرتا ہے، اور یہ موازنہ اکثر اوقات منفی جذبات کو جنم دیتا ہے۔
جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ والدین کا اسمیں غیر معمولی کردار ہے چونکہ والدین بچوں کی شخصیت سازی میں مرکزی کردار ادا کرتے ہیں۔ ان کے رویے اور الفاظ بچوں کی سوچ اور جذبات پر گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں۔ جب والدین بچوں کی صلاحیتوں کا موازنہ ان کے بہن بھائیوں یا دیگر بچوں سے کرتے ہیں، تو بچے کے ذہن میں یہ بات بیٹھ جاتی ہے کہ وہ دوسرے بچوں کے مقابلے میں کم تر ہے۔ مثلاً:
- "دیکھو، تمہارا بھائی کتنی اچھی کارکردگی دکھا رہا ہے، اور تم ہمیشہ پیچھے رہتے ہو۔"
- "تمہیں اپنے دوست کی طرح محنتی ہونا چاہیے، ورنہ تم کبھی کامیاب نہیں ہو گے۔"
یہ الفاظ بظاہر بچے کو بہتر بنانے کے لیے کہے جاتے ہیں، لیکن حقیقت میں یہ بچے کے اندر موازنے کی نفسیات کو جنم دیتے ہیں، جو آگے چل کر حسد کا سبب بنتی ہے۔
حسد کا شکار ہونے والے بچوں میں تناؤ کا ہارمون (کورٹیسول) زیادہ مقدار میں پیدا ہوتا ہے، جو ان کی ذہنی صحت پر منفی اثر ڈالتا ہے۔ یہ بچوں کو افسردگی، اضطراب، اور احساس کمتری کی طرف دھکیل دیتا ہے۔
موازنے کی نفسیات سے متاثر بچے اکثر خود اعتمادی سے محروم ہو جاتے ہیں اور ان کی فیصلہ سازی کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔ وہ دوسروں کے سامنے خود کو ثابت کرنے کی کوشش میں جذباتی طور پر غیر متوازن ہو سکتے ہیں۔
ان میں غیر اخلاقی حرکتیں سنگ دلی گھناؤنے اعمال سرزد ہوتے ہیں وہ اپنے قریبی لوگوں پر خصوصاً بہن بھائیوں پر ظلم کرنے سے باز نہیں آتے
اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو منفرد صلاحیتوں اور خصوصیات کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ قرآن مجید میں فرمایا گیا:
"وَرَفَعْنَا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ"(الزخرف: 32)
"اور ہم نے ان میں سے بعض کو بعض پر درجے میں بلند کیا۔"
ہر بچہ اپنی صلاحیتوں، دلچسپیوں، اور فطرت میں مختلف ہوتا ہے۔ کوئی بچہ تعلیمی میدان میں بہترین ہوتا ہے، تو کوئی کھیلوں، آرٹ، یا دیگر تخلیقی صلاحیتوں میں نمایاں ہوتا ہے۔ والدین کا فرض ہے کہ وہ انفرادیت کو پہچانیں اور ہر بچے کو اس کی مخصوص قابلیت کے مطابق پروان چڑھائیں۔
اسکا بہترین حل یہ ہے کہ
ہر بچے کو اس کی منفرد صلاحیتوں کے مطابق ترقی کرنے کا موقع دیں اور اس کی حوصلہ افزائی کریں۔
بچوں کی چھوٹی کامیابیوں کو بھی سراہیں اور ان کی محنت کی تعریف کریں، تاکہ ان میں خود اعتمادی پیدا ہو۔
بچوں کو ایک دوسرے سے بہتر بنانے کے لیے موازنہ کرنے کے بجائے، انہیں انفرادی اہداف دینے کی کوشش کریں۔
بچوں کو سکھائیں کہ اپنی کامیابی کا معیار دوسروں سے نہیں بلکہ اپنی محنت اور قابلیت سے طے کریں۔
بہن بھائیوں کے درمیان محبت، تعاون، اور مشترکہ کامیابی کے جذبات پیدا کریں، تاکہ وہ ایک دوسرے کو اپنا حریف سمجھنے کے بجائے حامی بن سکیں۔
خلاصہ یہ ہے کہ موازنہ ایک ایسا عمل ہے جو والدین کے غیر شعوری رویے سے بچوں کی شخصیت پر گہرے اثرات ڈال سکتا ہے۔ حسد اور موازنے کی نفسیات سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ والدین اپنے بچوں کی منفرد صلاحیتوں کو سمجھیں، ان کی حوصلہ افزائی کریں، اور محبت بھرا ماحول فراہم کریں۔ یہی وہ راستہ ہے جو بچوں کو نہ صرف کامیاب بلکہ مطمئن اور خوشحال انسان بننے میں مدد فراہم کرے گا۔
اللہ پاک ہم سب کو اور ہماری نسلوں کو نا حاسد بنائے اور نا کسی کے حسد کا نشانہ بنائے۔ آمین ثم آمین
Comments