*یہ جو آپ لہجوں کو برداشت کرنے کا حوصلہ رکھتی ہیں، کیا یہ رزق نہیں........ کیا یہ نعمت نہیں*.....
*.ہر بار جھک کر آپ تعلق بچا لیتی ہیں،* *یہ کسی نعمت سے کم تھوڑی ہے*.......*یہ ایسا رزق ہے جس سے دنیا میں آپ عزت آخرت میں اجر کمائیں گی ۔ہم رزق کی تلاش میں صبح شام مارے مارے پھرتے ہیں.............*
*ضروریاتِ سے زائد کی خواہش جنم لیتی ہے اور جب وہ خواہش پوری نہ ہو تو ذہنی اذیت میں مبتلا رہنا ہمارا معمول بن جاتا ہے۔*
*اس لمحے اپنی ذات کی خوبیوں پہ نظر تو ڈالیں۔*
*آپ کا صبر....... آپ کی قربانی...... آپ کا اخلاق..... آپ کا کردار......... آپ کی قناعت.....دنیا سے بے رغبتی......... قرآنِ کریم سے دوستی........*یہ ایسا رزق ہے*.... جس کا فائدہ تو دوگنا ہے........*
*آپ جیسا سمجھدار تو کوئی ہو ہی نہیں سکتا.... کہ آپ دنیا بھی کما رہیے ہیں اور مستقبل کے لیے بچت بھی کر رہیے ہیں......*.
*جن نعمتوں سے محروم رہ کر آپ صبر کر رہیے ہیں*... *کیا اس صبر کی توفیق اس انسان کے پاس موجود ہے جو ان نعمتوں سے مالا مال ہے............*
*جو آنسو محرومی کے وقت نکلتا ہے. ... وہ دنیا کی مدہوشی میں آج کے دور میں شکر ادا کرتے وقت نکل نہیں پاتا*.....
یہ تحریر انسان کی زندگی کے حقیقی معنوں اور کامیابی کے راز کو بیان کرتی ہے۔ اس میں درج خیالات کو سمجھنے کے لیے درج ذیل نکات پر غور کریں:1. صبر اور قربانی کی اہمیت:تحریر میں بتایا گیا ہے کہ تعلقات کو بچانے کے لیے بار بار جھکنا اور دوسروں کے رویوں کو برداشت کرنا ایک عظیم نعمت ہے۔ یہ صرف ایک انسانی رویہ نہیں بلکہ ایک ایسا رزق ہے جو دنیا اور آخرت دونوں میں کامیابی کا باعث بنتا ہے۔
2. محرومی اور قناعت کا فلسفہ:جب انسان اپنی ضروریات اور خواہشات کے درمیان فرق کو سمجھتا ہے اور محرومی کے باوجود اللہ کی دی ہوئی دیگر نعمتوں پر شکر ادا کرتا ہے، تو یہ اس کی شخصیت کو بلند کرتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ شخص جو محروم ہے لیکن صابر ہے، اس شخص سے بہتر ہو سکتا ہے جو ہر چیز رکھتے ہوئے بھی ناشکرا ہے۔
3. اخلاقی اور روحانی رزق:تحریر میں یہ نکتہ واضح کیا گیا ہے کہ حقیقی رزق وہ ہے جو انسان کے اخلاق، کردار، اور روحانیت میں ظاہر ہوتا ہے۔ دنیاوی مال و دولت وقتی ہے، لیکن صبر، قناعت، اور اللہ پر بھروسہ دائمی سکون فراہم کرتے ہیں۔
4. آزمائش اور شکر گزاری:انسان آزمائشوں میں رہ کر جو صبر کرتا ہے، وہ اللہ کی طرف سے ایک خاص توفیق ہے۔ جبکہ دنیاوی نعمتوں سے مالا مال لوگ اکثر شکر گزاری میں ناکام رہتے ہیں۔ یہ ایک گہری حقیقت ہے کہ جس کا دل محرومی میں بھی شکر ادا کرے، وہ اللہ کا سب سے محبوب بندہ ہوتا ہے۔
5. دو جہانی کامیابی:جو شخص صبر، قناعت اور اچھے اخلاق کے ساتھ زندگی گزارتا ہے، وہ نہ صرف دنیا میں عزت کماتا ہے بلکہ آخرت میں بھی اجر پاتا ہے۔ اس طرح وہ بیک وقت دنیاوی اور اخروی کامیابی حاصل کرتا ہے۔
یہ تحریر ہمیں یاد دلاتی ہے کہ اصل رزق مادی وسائل نہیں بلکہ وہ نعمتیں ہیں جو ہماری شخصیت، روحانیت، اور تعلقات میں چھپی ہوئی ہیں۔ یہ ہمیں دعوت دیتی ہے کہ اپنی ذات میں جھانکیں، اپنی خوبیوں کو پہچانیں اور اللہ کے شکر گزار بندے بنیں۔x
*یہ جو آپ لہجوں کو برداشت کرنے کا حوصلہ رکھتی ہیں، کیا یہ رزق نہیں........ کیا یہ نعمت نہیں*..... *.ہر بار جھک کر آپ تعلق بچا لیتی ہیں،* *یہ کسی نعمت سے کم تھوڑی ہے*.......*یہ ایسا رزق ہے جس سے دنیا میں آپ عزت آخرت میں اجر کمائیں گی ۔ہم رزق کی تلاش میں صبح شام مارے مارے پھرتے ہیں.............* *ضروریاتِ سے زائد کی خواہش جنم لیتی ہے اور جب وہ خواہش پوری نہ ہو تو ذہنی اذیت میں مبتلا رہنا ہمارا معمول بن جاتا ہے۔* *اس لمحے اپنی ذات کی خوبیوں پہ نظر تو ڈالیں۔* *آپ کا صبر....... آپ کی قربانی...... آپ کا اخلاق..... آپ کا کردار......... آپ کی قناعت.....دنیا سے بے رغبتی......... قرآنِ کریم سے دوستی........*یہ ایسا رزق ہے*.... جس کا فائدہ تو دوگنا ہے........* *آپ جیسا سمجھدار تو کوئی ہو ہی نہیں سکتا.... کہ آپ دنیا بھی کما رہیے ہیں اور مستقبل کے لیے بچت بھی کر رہیے ہیں......*. *جن نعمتوں سے محروم رہ کر آپ صبر کر رہیے ہیں*... *کیا اس صبر کی توفیق اس انسان کے پاس موجود ہے جو ان نعمتوں سے مالا مال ہے............* *جو آنسو محرومی کے وقت نکلتا ہے. ... وہ دنیا کی مدہوشی میں آج کے دور میں شکر ادا کرتے وقت نکل نہیں پاتا*.....
Comments