*👑جو نیک زوج کی خواہش رکھتا ہو!!!
*
اہلِ علم کا کہنا ہے کہ جو شخص شادی کا خواہاں ہو... اسے یہ دعا پڑھنی چاہیے:
`رَبِّ إِنِّي لِمَا أَنْزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ`
[سورۃ القصص: 24]
(اے میرے رب!! جو خیر بھی تو مجھ پر نازل کرے... میں اس کا محتاج ہوں)
کیونکہ اس دعا کے فوراً بعد اللّٰــہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
`فَجَاءَتْهُ إِحْدَاهُمَا تَمْشِي عَلَى ٱلِٱسْتِحْيَآءِ`
[سورۃ القصص: 25]
(پھر ان دونوں میں سے ایک شرم و حیا کے ساتھ چلتی ہوئی اس کے پاس آئی)
یہ بات یاد رہے کہ یہ دعا مرد و خواتین دونوں کے لیے یکساں طور پر موزوں اور مسنون ہے...!!
اللّٰــہ تعالیٰ سے حسنِ تدبیر اور نیک نصیب کے لیے دعا کرنا ہر مومن کے لیے باعثِ خیر ہے...!!
یہ مضمون قرآن مجید کی ایک آیت سے رہنمائی لیتے ہوئے نیک شریکِ حیات کی خواہش رکھنے والوں کو دعا اور حسنِ تدبیر کا سبق دیتا ہے۔ اس کا تعلق سورۃ القصص کی ایک واقعہ سے ہے جس میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ پیش آنے والے ایک اہم لمحے کو بیان کیا گیا ہے۔ اس مضمون میں نہ صرف دعا کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ پر بھروسے اور اس کی جانب رجوع کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔
---
مضمون کی وضاحت:
1. قرآن سے رہنمائی:
سورۃ القصص کی آیت 24 میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا کا ذکر کیا گیا ہے:
رَبِّ إِنِّي لِمَا أَنْزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ
(اے میرے رب! جو بھی خیر تو مجھ پر نازل کرے، میں اس کا محتاج ہوں)
یہ دعا اس وقت کی گئی جب حضرت موسیٰ علیہ السلام مدین کے علاقے میں بے سروسامانی کی حالت میں تھے، اور انہیں نہ رہنے کا ٹھکانہ تھا اور نہ کھانے کا انتظام۔ ایسے میں انہوں نے اپنے رب سے خیر کی طلب کی، جس میں ہر طرح کی بھلائی شامل تھی۔
2. دعا کے نتیجے میں بھلائی:
اس دعا کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنی رحمت فرمائی، اور فوراً بعد قرآن مجید میں ذکر آتا ہے:
فَجَاءَتْهُ إِحْدَاهُمَا تَمْشِي عَلَى ٱلِٱسْتِحْيَآءِ
(پھر ان دونوں میں سے ایک [لڑکی] شرم و حیا کے ساتھ چلتی ہوئی ان کے پاس آئی)
یہ لڑکی وہی تھیں جن کی حضرت موسیٰ علیہ السلام نے مدین کے کنویں پر مدد کی تھی۔ ان کے والد نے حضرت موسیٰ کو اپنے گھر آنے کی دعوت دی، اور پھر ان کا نکاح اپنی بیٹی سے کر دیا۔ یوں یہ دعا نہ صرف ان کی فوری ضرورت (رہائش اور روزگار) پوری کرنے کا ذریعہ بنی بلکہ اللہ نے انہیں ایک نیک زوجہ بھی عطا فرمائی۔
---
دعا کی اہمیت:
یہ دعا ان تمام لوگوں کے لیے ایک سبق ہے جو نیک شریکِ حیات کی خواہش رکھتے ہیں۔ اس میں یہ پیغام ہے کہ مومن کو اپنی خواہشات اور ضروریات کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ اللہ کی رحمت سے ناامید ہونے کے بجائے اس سے خیر طلب کرنا ایک مومن کی ذمہ داری ہے۔
---
نکاح کے لیے دعا کا فائدہ:
1. رجوع الی اللہ:
یہ دعا ہمیں یاد دلاتی ہے کہ انسان کو ہمیشہ اللہ پر بھروسہ رکھنا چاہیے، کیونکہ وہی ہماری ضروریات پوری کرنے والا ہے۔
2. خیر کی جامع دعا:
یہ دعا جامع ہے اور اس میں صرف شریکِ حیات ہی نہیں بلکہ ہر طرح کی بھلائی کی طلب شامل ہے، چاہے وہ دنیاوی ہو یا دینی۔
3. نرمی اور شرم و حیا:
اللہ تعالیٰ کی جانب سے حضرت موسیٰ کے لیے شریکِ حیات کا بندوبست ایک ایسے شخص کے ذریعے ہوا جو شرم و حیا کی صفت سے مزین تھا۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ شریکِ حیات کی تلاش میں بھی ان صفات کو ترجیح دی جانی چاہیے۔
4. دعا کی قبولیت کا یقین:
حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا کا فوری جواب ہمیں یقین دلاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے خلوص اور عاجزی کے ساتھ مانگی گئی دعاؤں کو قبول کرتا ہے۔
---
مرد و خواتین دونوں کے لیے سبق:
یہ دعا مرد اور خواتین دونوں کے لیے یکساں طور پر موزوں ہے۔ شریکِ حیات کی خواہش رکھنا ایک فطری بات ہے، اور اللہ تعالیٰ سے نیک نصیب کی دعا کرنا ہر مومن کا حق ہے۔ یہ دعا سکھاتی ہے کہ ہمیں نہ صرف اپنی کوشش جاری رکھنی چاہیے بلکہ دعا کے ذریعے اللہ سے مدد بھی مانگنی چاہیے۔
نتیجہ:
یہ مضمون قرآن مجید کی ایک خوبصورت دعا کی اہمیت کو بیان کرتا ہے جو نیک نصیب اور حسنِ تدبیر کے لیے کی جا سکتی ہے۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ زندگی کے ہر معاملے میں اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنا اور اس سے خیر طلب کرنا کامیابی کی کنجی ہے۔ نیک شریکِ حیات اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے، اور اس نعمت کو پانے کے لیے دعا اور صبر دونوں ضروری ہیں۔
Comments