✨❄ *اِصلاحِ اَغلاط: عوام میں رائج غلطیوں کی اِصلاح*❄✨
*سلسلہ نمبر 1931:*
🌻 *غیر عالم سے دینی مسئلہ پوچھنے پر تنبیہ*
📿 *غیر عالم یعنی عام آدمی سے دینی مسئلہ پوچھنے پر تنبیہ:*
دین سیکھنا اور دینی مسائل دریافت کرنا جہاں بہت ہی اہم اور ضروری ہے وہاں یہ بہت ہی نازک معاملہ بھی ہے، اس میں جس قدر بھی احتیاط کی جائے کم ہے۔ چنانچہ جلیل القدر تابعی امام محمد بن سیرین رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
إِنَّ هٰذَا الْعِلْمَ دِينٌ، فَانْظُرُوا عَمَّنْ تَأْخُذُونَ دِينَكُمْ. (صحیح مسلم مقدمہ)
▪️ *ترجمہ:* یہ علم، دین ہے، اس لیے تحقیق کرلیا کرو کہ تم اپنا دین کس سے حاصل کررہے ہو۔
اس لیے تحقیق کیے بغیر ہر ایک سے دین نہیں سیکھنا چاہیے اور نہ ہی ہر ایک سے مسائل پوچھنے چاہییں۔ آجکل ایک بڑا المیہ یہ بھی ہے کہ بہت سے لوگ کسی شخص کی ڈاڑھی، ٹوپی، پگڑی اور دینی حلیہ دیکھ کر اس سے مسائل پوچھنا شروع کردیتے ہیں، جس میں اس بات کی بھی تحقیق گوارہ نہیں کرتے کہ وہ عالم ہے یا نہیں؟ دینی مسائل سے واقف ہے یا نہیں؟ وہ دین بیان کرنے کا اہل ہے یا نہیں؟ یہ نہایت ہی غلط اور غیر محتاط طرز عمل ہے جس کا بہت نقصان سامنے آیا ہے۔ اگر لوگ دین سیکھنے میں احتیاط سے کام لیتے ہوئے صرف مستند اہلِ علم ہی سے دین سیکھیں تو بہت سے فتنے، غلط مسائل اور گمراہیاں ختم ہوجائیں گی۔
☀ التَّنويرُ شَرْحُ الجَامِع الصَّغِيرِ:
8471- من أفتى بغير علم كان إثمه على من أفتاه، ومن أشار على أخيه بأمر يعلم أن الرشد في غيره فقد خانه. (د ك) عن أبي هريرة (صح).
✍🏻۔۔۔ مفتی مبین الرحمٰن صاحب مدظلہم
فاضل جامعہ دار العلوم کراچی
محلہ بلال مسجد نیو حاجی کیمپ سلطان آباد کراچی
26 جمادی الآخرۃ 1446ھ/ 29 دسمبر 2024
یہ مضمون دین کے علم کی نزاکت اور دینی مسائل کو سیکھنے اور سمجھنے میں احتیاط برتنے کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔ اس میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ دین ایک حساس موضوع ہے اور ہر شخص کو یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ دین کس سے سیکھ رہا ہے۔ غیر مستند اور غیر عالم لوگوں سے دینی مسائل پوچھنے کی روش کے خطرات اور نقصانات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ ذیل میں اس مضمون کی تفصیل درج ہے:
---
1. دین کا علم نازک اور اہم معاملہ
دین سیکھنا صرف ایک عام عمل نہیں بلکہ ایک مقدس ذمہ داری ہے۔ امام محمد بن سیرینؒ کا قول:
> "یہ علم دین ہے، اس لیے تحقیق کرو کہ تم اپنا دین کس سے حاصل کر رہے ہو" (صحیح مسلم)
اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ دین کو سیکھنے کے لیے اہل، مستند اور معتبر علما کا انتخاب ضروری ہے۔ یہ علم محض معلومات کا تبادلہ نہیں بلکہ ایک ذمہ داری ہے جو انسان کے ایمان اور عمل پر اثر ڈالتی ہے۔
---
2. غیر مستند ذرائع سے دینی مسائل پوچھنے کا نقصان
آج کل اکثر لوگ صرف کسی کے ظاہری حلیے، جیسے ڈاڑھی، ٹوپی، یا پگڑی، کو دیکھ کر اس سے دینی مسائل پوچھنے لگتے ہیں، جبکہ وہ شخص عالم یا دین بیان کرنے کا اہل نہیں ہوتا۔ اس طرزِ عمل کے خطرات درج ذیل ہیں:
غلط فہمیاں اور گمراہی: غیر مستند شخص کی دی گئی معلومات غلط ہو سکتی ہیں، جو گمراہی اور فتنہ پیدا کر سکتی ہیں۔
عمل کی خرابی: غلط مسئلے پر عمل کرنا دینی اور دنیوی نقصان کا سبب بن سکتا ہے۔
دین کی بدنامی: ایسے غلط فتووں سے دین کی حقیقی تصویر دھندلا سکتی ہے۔
---
3. احتیاط کی ضرورت
مضمون میں یہ وضاحت کی گئی ہے کہ دین کے مسائل صرف ان سے سیکھے جائیں جو مستند علما ہوں اور جن کی علمی حیثیت تسلیم شدہ ہو۔ دینی علم حاصل کرنے میں تحقیق اور احتیاط کا حکم قرآن اور احادیث میں بھی موجود ہے۔
> "جو بغیر علم کے فتویٰ دے، اس کا گناہ اس پر ہے جس نے فتویٰ دیا۔"
(التنوير شرح الجامع الصغير)
یہ حدیث اس بات کو واضح کرتی ہے کہ اگر کوئی غیر عالم فتویٰ دے اور وہ غلط ثابت ہو تو اس کا گناہ اس فتویٰ دینے والے پر ہوگا۔
---
4. مستند علما کی اہمیت
اسلام میں دینی علم حاصل کرنے اور دوسروں کو دین سکھانے کے لیے شرائط اور اصول مقرر ہیں۔ مستند علما وہ ہیں:
جنہوں نے باقاعدہ دینی تعلیم حاصل کی ہو۔
جن کے علم، تقویٰ اور کردار کی گواہی دی جاتی ہو۔
جو قرآن و سنت اور فقہ کے اصولوں سے اچھی طرح واقف ہوں۔
---
5. عمل کا صحیح طریقہ
مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ دین سیکھنے کے لیے صرف اہلِ علم علما سے رجوع کریں۔ مستند علما سے دین سیکھنے سے نہ صرف گمراہی سے بچا جا سکتا ہے بلکہ دینی مسائل کو صحیح اور واضح انداز میں سمجھا جا سکتا ہے۔
نتیجہ
یہ مضمون ہمیں یہ درس دیتا ہے کہ دین سیکھنے کے معاملے میں بے احتیاطی سے گریز کریں اور غیر مستند افراد سے دینی مسائل نہ پوچھیں۔ دین ایک قیمتی امانت ہے، جسے صرف اہلِ علم علما کے ذریعے سیکھا جانا چاہیے تاکہ
انسان صحیح علم پر عمل کر سکے اور دنیا و آخرت میں کامیابی حاصل کرے۔
Comments