اے دینِ حق کے رہبر تم پر سلام ہر دم
میرے شفیعِ محشر تم پر سلام ہر دم
اِس بے کس و حزیں پر جو کچھ گزر رہی ہے
ظاہر ہے سب وہ تم پر، تم پر سلام ہر دم
دُنیا و آخرت میں جب میں رہوں سلامت
پیارے پڑھوں نہ کیوں کر تم پر سلام ہر دم
دِل تفتگانِ فرقت پیاسے ہیں مدتوں سے
ہم کو بھی جامِ کوثر تم پر سلام ہر دم
بندہ تمہارے دَر کا آفت میں مبتلا ہے
رحم اے حبیبِ دَاور تم پر سلام ہر دم
بے وارثوں کے وارث بے والیوں کے والی
تسکینِ جانِ مضطر تم پر سلام ہر دم
للہ اب ہماری فریاد کو پہنچئے
بے حد ہے حال اَبتر تم پر سلام ہر دم
جلادِ نفسِ بد سے دیجے مجھے رِہائی
اب ہے گلے پہ خنجر تم پر سلام ہر دم
دَریوزہ گر ہوں میں بھی ادنیٰ سا اُس گلی کا
لطف و کرم ہو مجھ پر تم پر سلام ہر دم
کوئی نہیں ہے میرا میں کس سے داد چاہوں
سلطانِ بندہ پرور تم پر سلام ہر دم
غم کی گھٹائیں گھر کر آئی ہیں ہر طرف سے
اے مہر ذرّہ پرور تم پر سلام ہر دم
بُلوا کے اپنے دَر پر اب مجھ کو دیجے عزت
پھرتا ہوں خوار دَر دَر تم پر سلام ہر دم
محتاج سے تمہارے سب کرتے ہیں کنارا
بس اک تمھیں ہو یاور تم پر سلام ہر دم
بہرِ خدا بچائو اِن خار ہاے غم سے
اک دل ہے لاکھ نشتر تم پر سلام ہر دم
کوئی نہیں ہمارا ہم کس کے دَر پہ جائیں
اے بے کسوں کے یاور تم پر سلام ہر دم
کیا خوف مجھ کو پیارے نارِ جحیم سے ہو
تم ہو شفیعِ محشر تم پر سلام ہر دم
اپنے گداے دَر کی لیجے خبر خدارا
کیجے کرم حسنؔ پر تم پر سلام ہر دم
استاذ زمن علامہ حسن رضا بریلوی رحمۃ اللہ علیہ
یہ نعت علامہ حسن رضا بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کی محبتِ رسول ﷺ، عاجزی، اور گہرے روحانی جذبات کا عکاس ہے۔ نیچے ہر شعر کی تشریح وضاحت کے ساتھ پیش کی جا رہی ہے:
---
اے دینِ حق کے رہبر تم پر سلام ہر دم
میرے شفیعِ محشر تم پر سلام ہر دم
یہاں شاعر حضور ﷺ کو دینِ حق کے رہنما اور قیامت کے دن شفاعت کرنے والے کے طور پر مخاطب کر رہے ہیں۔ وہ نہایت محبت کے ساتھ ہر وقت ان پر درود و سلام بھیجنے کی تمنا کا اظہار کرتے ہیں۔
---
اِس بے کس و حزیں پر جو کچھ گزر رہی ہے
ظاہر ہے سب وہ تم پر، تم پر سلام ہر دم
شاعر اپنی حالتِ زار بیان کرتے ہیں کہ ان کی تمام پریشانیاں اور مشکلات حضور ﷺ پر ظاہر ہیں۔ وہ انہیں مدد کے لیے پکار رہے ہیں اور اپنے جذباتِ عقیدت کے طور پر درود بھیجتے ہیں۔
---
دُنیا و آخرت میں جب میں رہوں سلامت
پیارے پڑھوں نہ کیوں کر تم پر سلام ہر دم
یہاں شاعر دعا کرتے ہیں کہ دنیا و آخرت میں ان کی حفاظت ہو۔ وہ محبت سے کہتے ہیں کہ ایسی صورت میں حضور ﷺ پر درود و سلام بھیجنا ان کا فریضہ اور محبت کا تقاضا ہے۔
---
دِل تفتگانِ فرقت پیاسے ہیں مدتوں سے
ہم کو بھی جامِ کوثر تم پر سلام ہر دم
یہ شعر قیامت کے دن کے منظر کی عکاسی کرتا ہے، جہاں شاعر جامِ کوثر (حوضِ کوثر کا پانی) کی تمنا کرتے ہیں۔ وہ حضور ﷺ کی محبت میں اس عظیم نعمت کے لیے دعا کرتے ہیں اور درود و سلام پیش کرتے ہیں۔
---
بندہ تمہارے دَر کا آفت میں مبتلا ہے
رحم اے حبیبِ دَاور تم پر سلام ہر دم
یہاں شاعر اپنی عاجزی اور بے بسی کا ذکر کرتے ہیں کہ وہ حضور ﷺ کے در کا غلام ہیں اور آزمائشوں میں گھرے ہوئے ہیں۔ وہ حضور ﷺ سے رحم اور مدد کی درخواست کرتے ہیں۔
---
بے وارثوں کے وارث بے والیوں کے والی
تسکینِ جانِ مضطر تم پر سلام ہر دم
شاعر حضور ﷺ کو ان لوگوں کا سہارا قرار دیتے ہیں جو بے یار و مددگار ہیں۔ وہ انہیں اپنی بے قراری اور غموں کا مداوا مانتے ہیں اور سلام پیش کرتے ہیں۔
---
للہ اب ہماری فریاد کو پہنچئے
بے حد ہے حال اَبتر تم پر سلام ہر دم
یہاں شاعر حضور ﷺ کو اپنی فریاد کے لیے بلاتے ہیں اور اپنی حالت کی ناگفتہ بہ کیفیت بیان کرتے ہیں۔ ان کی زبان پر درود و سلام جاری ہے، جو ان کی عقیدت کی گہرائی کو ظاہر کرتا ہے۔
---
جلادِ نفسِ بد سے دیجے مجھے رِہائی
اب ہے گلے پہ خنجر تم پر سلام ہر دم
یہاں شاعر اپنی خواہش بیان کرتے ہیں کہ انہیں نفس کی برائیوں سے نجات دی جائے۔ وہ اس آزمائش کو ایک خنجر کے طور پر بیان کرتے ہیں اور اپنی نجات کے لیے حضور ﷺ سے مدد کے طلبگار ہیں۔
---
دَریوزہ گر ہوں میں بھی ادنیٰ سا اُس گلی کا
لطف و کرم ہو مجھ پر تم پر سلام ہر دم
شاعر اپنے آپ کو حضور ﷺ کے در کا گدا اور غلام کہتے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو بے حد عاجز اور معمولی سمجھتے ہیں اور ان کے لطف و کرم کی دعا کرتے ہیں۔
---
کوئی نہیں ہے میرا میں کس سے داد چاہوں
سلطانِ بندہ پرور تم پر سلام ہر دم
یہاں شاعر اپنی بے بسی اور تنہائی کا ذکر کرتے ہیں کہ ان کا کوئی سہارا نہیں سوائے حضور ﷺ کے، جو بندوں پر مہربان ہیں۔
---
غم کی گھٹائیں گھر کر آئی ہیں ہر طرف سے
اے مہر ذرّہ پرور تم پر سلام ہر دم
شاعر اپنے اوپر چھائی ہوئی مشکلات کو غم کی گھٹائیں کہتے ہیں۔ وہ حضور ﷺ کو اپنی زندگی کا سورج قرار دیتے ہیں اور ان کی مہربانی کے طلبگار ہیں۔
---
بُلوا کے اپنے دَر پر اب مجھ کو دیجے عزت
پھرتا ہوں خوار دَر دَر تم پر سلام ہر دم
یہاں شاعر دعا کرتے ہیں کہ انہیں اپنے در پر بلا لیا جائے تاکہ وہ عزت پائیں۔ وہ اپنی حالت بیان کرتے ہیں کہ وہ جگہ جگہ ذلت کے ساتھ گھوم رہے ہیں۔
---
محتاج سے تمہارے سب کرتے ہیں کنارا
بس اک تمھیں ہو یاور تم پر سلام ہر دم
یہاں شاعر بیان کرتے ہیں کہ دنیا کے لوگ محتاجوں سے دور ہو جاتے ہیں، لیکن حضور ﷺ واحد ہستی ہیں جو سب کی مدد کرتے ہیں۔
---
بہرِ خدا بچائو اِن خار ہاے غم سے
اک دل ہے لاکھ نشتر تم پر سلام ہر دم
شاعر اپنے دل کے درد کو بیان کرتے ہیں کہ یہ غموں کے کانٹوں سے زخمی ہے۔ وہ حضور ﷺ سے دعا کرتے ہیں کہ ان کے دل کو سکون عطا کریں۔
---
کوئی نہیں ہمارا ہم کس کے دَر پہ جائیں
اے بے کسوں کے یاور تم پر سلام ہر دم
یہاں شاعر اپنی بے کسی بیان کرتے ہیں کہ ان کے پاس کوئی سہارا نہیں، سوائے حضور ﷺ کے، جو بے سہارا لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔
---
کیا خوف مجھ کو پیارے نارِ جحیم سے ہو
تم ہو شفیعِ محشر تم پر سلام ہر دم
شاعر اعتماد کے ساتھ بیان کرتے ہیں کہ انہیں دوزخ کے عذاب کا کوئی خوف نہیں کیونکہ حضور ﷺ قیامت کے دن ان کے شفاعت کرنے والے ہیں۔
---
اپنے گداے دَر کی لیجے خبر خدارا
کیجے کرم حسنؔ پر تم پر سلام ہر دم
آخری شعر میں شاعر اپنی حالتِ غلامی بیان کرتے ہوئے حضور ﷺ سے دعا کرتے ہیں کہ ان پر خصوصی کرم کریں اور ان کی مشکلات کو آسان کریں۔
---
مجموعی پیغام:
یہ نعت ایک بندے کے گہرے جذبات، عاجزی، اور عشقِ رسول ﷺ کا بہترین اظہار ہے۔ اس میں دنیاوی مشکلات، نفس کی آزمائش، اور آخرت میں کامیابی کے لیے حضور ﷺ کی شفاعت کی طلب نمایاں ہے۔ ہر شعر میں عاجزی، امید، اور محبت کا منفرد رنگ جھلکتا ہے۔
Comments