*ایزی پیسہ کے ذریعے رقم نکلوانے پر اضافی رقم لینے کا حکم*
سوال:
حضرت مفتی صاحب امید ہے آپ خیریت سے ہوں گے
حضرت الحمدللہ آپ کے گروپ سے ہمیں بہت فوائد ہو رہے ہیں جتنا بھی مشکل سے مشکل مسئلہ ہو آپ ان کو حل کرتے ہیں ہماری رہنمائی کرتے ہیں کہیں سے بھی اگر ہمیں جواب نہ ملے تو ہم آپ کی طرف رجوع کرتے ہیں اور آپ اس کی رہنمائی فرماتے ہیں
ایزی پیسے کی شوپ والا اگر ایک ھزار یا ایک لاکھ ھمارے لیے آنلاین کرے تو ھم سے جو ٹیکس لیتے ھیں وه تو وه اپنے لیے لے لیتے ھیں تو کچھ شوپ والے زیاده ٹیکس لیتے ھیں کچھ شوپ والے کم ٹیکس لیتے ھیں
اگر اس بارے میں مضبوط دلائل ہو تو بڑی مہربانی ہوگی اگر ہماری رہنمائی کرے
جواب
واضح رہے کہ ایزی پیسہ کا کام کرنے والے افراد کی حیثیت درحقیقت کمپنی کے نمائندہ کی ہے، جس پر انہیں کمپنی کی جانب سے معاوضہ کمیشن کی صورت میں دیا جاتا ہے، کمپنی کی جانب سے طے شدہ کمیشن سے زائد وصول کرنے کی کمپنی کی طرف سے اجازت نہیں ہوتی۔
لہٰذا صورتِ مسئولہ میں ایزی پیسہ کے ذریعے رقم نکالنے کی صورت میں متعلقہ کمپنی جتنی رقم کاٹتی ہے٬دکاندار کے لیے گاہک سے اُتنی رقم لینا شرعاً جائز ہے،
اس پر اضافی رقم وصول کرنا شرعا درست نہیں ہے۔ اب اگر مخصوص رقم نکلوانے پر کمپنی کے ضوابط کے مطابق بیس مخصوص روپے لیے جاتے ہیں تو یہ لینا جائز ہے، کمپنی کی طرف سے سروس چارجز ہے، سود کے زمرے میں نہیں ہے۔ لیکن اگر کمپنی کے ضوابط کے خلاف یہ رقم لی جاتی ہے تو اس کا لینا جائز نہیں ہوگا۔
فتاوی شامی میں ہے:
"قال في التتارخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم. وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسدا لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام وعنه قال: رأيت ابن شجاع يقاطع نساجا ينسج له ثيابا في كل سنة."
(كتاب الإجارة، باب الإجارة الفاسدة، ج:6، ص:63، ط: سعيد)
والله تعالیٰ اعلم
آپ کے سوال اور اس کے جواب کو تفصیل سے دیکھنے کے بعد، درج ذیل وضاحت پیش کی جا سکتی ہے:
مسئلے کی نوعیت:
ایزی پیسہ یا دیگر آن لائن رقم کی منتقلی کی خدمات فراہم کرنے والے دکاندار کمپنی کے نمائندے ہوتے ہیں۔ کمپنی ان دکانداروں کو اپنی طرف سے ایک مخصوص کمیشن دیتی ہے۔
جب دکاندار کسی گاہک سے کمپنی کے مقرر کردہ چارجز کے علاوہ اضافی رقم وصول کرتا ہے، تو یہ عمل شرعی اور اخلاقی اعتبار سے قابل اعتراض ہو سکتا ہے۔
اہم نکات:
1. کمپنی کے مقرر کردہ چارجز: اگر کمپنی نے ایک مخصوص رقم (مثلاً 20 روپے) سروس چارجز کے طور پر طے کی ہے، تو دکاندار کے لیے صرف وہی چارجز وصول کرنا جائز ہیں۔ یہ چارجز کمپنی کی سروس کے بدلے لیے جاتے ہیں اور یہ سود کے زمرے میں نہیں آتے۔
2. اضافی رقم لینا: اگر دکاندار کمپنی کے مقرر کردہ چارجز سے زیادہ رقم وصول کرتا ہے، تو یہ عمل غیر شرعی ہے کیونکہ:
کمپنی نے دکاندار کو اضافی رقم لینے کی اجازت نہیں دی۔
گاہک کے ساتھ غیر منصفانہ رویہ اختیار کرنا اسلامی اصولوں کے خلاف ہے۔
3. شرعی حیثیت: جیسا کہ فتاویٰ شامی میں ذکر کیا گیا ہے، کوئی بھی اضافی چارج جو طے شدہ معاہدے یا عرف کے خلاف ہو، وہ شرعاً ممنوع ہے، جب تک کہ کوئی مستند ضرورت یا استثنائی حالت نہ ہو۔
مزید وضاحت:
کمپنی کے ضوابط کے تحت لین دین:
کمپنی کی مقرر کردہ فیس یا کمیشن لینا جائز ہے کیونکہ یہ باہمی معاہدے پر مبنی ہے اور یہ کسی بھی شرعی قاعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔
غیر منصفانہ اضافی رقم:
اگر کوئی دکاندار اضافی رقم لیتا ہے تو یہ اسلامی تعلیمات کے مطابق خیانت اور حرام مال کے زمرے میں آتا ہے۔
عملی رہنمائی
1. گاہک کے لیے مشورہ: گاہک کو چاہیے کہ وہ پہلے سے تحقیق کر لے کہ کمپنی کے سروس چارجز کیا ہیں اور دکاندار سے ان سے زیادہ رقم دینے سے گریز کرے۔
2. دکاندار کے لیے نصیحت: دکاندار کو چاہیے کہ وہ دیانتداری کے ساتھ کمپنی کے ضوابط کے مطابق ہی عمل کرے۔ اضافی رقم لینے سے نہ صرف گناہ ہوگا بلکہ گاہکوں کا اعتماد بھی ختم ہو سکتا ہے۔
خلاصہ:
کمپنی کے مقرر کردہ چارجز لینا جائز ہے۔
اضافی رقم لینا شرعاً اور اخلاقاً ناجائز ہے۔
اس معاملے میں دیانتداری اور شریعت کی پاسداری ضروری ہے تاکہ لین دین حلا
ل اور برکت والا ہو۔
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
x
Comments