style="text-align: right;"> وعلیکم السلام ورحمةاللہ وبرکاتہ، الجواب بعون الملک الوھاب: right;">کنزالعمال کی حدیث پاک ہے
’’عن ابن عباس قال لا ینبغی الصلاۃ علی أحد إلا النبیین‘‘
ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ نبی کے علاوہ کسی پر درود درست نہیں۔( کنزالعمال،کتاب الاذکار،باب فی الصلاۃ علیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ،جلد2،صفحہ392،مؤسسۃ الرسالۃ ،بیروت)
"علیہ السلام"انبیائے کرام و ملائکہ عظام علیہم الصلاہ والسلام کے لیے خاص ہے۔ غیر نبی و غیر ملائکہ کو "علیہ السلام"بالاستقلال لکھنے یا کہنے کی اجازت نہیں۔ ہاں بہ تبعیت حرج نہیں،
تنویر الابصار و در مختار میں ہے:
لا يصلي على غير الأنبياء ولا غير الملائكة إلا بطريق التبع.
سرکار اعلی حضرت امام اھل سنت الشاہ امام احمد رضا خان رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں:
”صَلوۃ وسَلام باِلاِسْتِقْلَال اَنبیاء و مَلائکہ عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَ السّلام کے سوا کسی کے لئے روانہیں ، ہاں بہ تَبْعیَّت جائز جیسے اَللّٰھُمَّ صَلّ وَسَلِّمْ عَلٰی سَیِّدِنَا وَمَوْلیٰنَامُحَمَّدٍ وَعَلٰی اٰلِ سَیِّدِنَا وَمَوْلیٰنا مُحَمَّدٍاور صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہ تَعالٰی عَنْہُم کے لئے رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کہا جائے ، اَولیائے وعُلماء کو رَحْمَۃُ اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْھِمْ یا قُدِّسَتْ اَسْرَارُھُمْ اور اگر رَضِیَ اللّٰہ تَعَالٰی عَنْھُمْ۔ کہے جب بھی کوئی مضائقہ نہیں"
(فتاوی رضویہ،ج23،ص390،)
صَدْرُ الشَّریعہ بَدْرُ الطَّریقہ علامہ مُفْتی امجد علی اَعظمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں :
’’کسی کے نام کے ساتھ عَلَیْہِ السَّلام کہنا ، یہ انبیاء و ملائکہ عَلَیْھِمُ السَّلام کے ساتھ خاص ہے ۔ مثلاً موسیٰ عَلَیْہِ السَّلام ، جبریل عَلَیْہِ السَّلام۔ نبی اور فِرِشتہ کے سوا کسی دوسرے کے نام کے ساتھ یوں نہ کہا جائے۔“(بہار شریعت جلد 3، حصہ 16 ،صفحہ 465 )
فتاوی امجدیہ میں حضور صدرُ الشَّریعہ علامہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُ اللہِ علیہ سے یہ سُوال ہوا کہ :
”یاحُسین عَلَیْہِ السَّلَام کہنا جائز ہے یا نہیں اور ایسا لکھنا بھی کیسا ہے اور پکارنا کیسا ہے ؟“
تو آپ نے جواب دیتے ہوئے تحریر فرمایا :
”یہ سلام جو نام کے ساتھ ذِکر کیا جاتا ہے یہ (یعنی یہ عَلَیْہِ السَّلَام کہنا، لکھنا) سلام ِتَحِیَّت (یعنی ملاقات کا سلام) نہیں جو باہم ملاقات کے وَقت کہا جاتا ہے یا کسی ذَرِیعہ سے کہلایا جاتا ہے بلکہ اس (یعنی عَلَیْہِ السَّلَام) سے مقصود صاحِبِ اِسم (یعنی جس کا نام ہے اُس) کی تعظیم ہے۔
عُرفِ اَہلِ اسلام نے اس سلام (یعنی عَلَیْہِ السَّلَام لکھنے بولنے) کو انبِیاء و ملائکہ کے ساتھ خاص کر دیا ہے۔ مَثَلاً حضرتِ ابراھیم عَلَیْہِ السَّلَام حضرتِ موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام حضرتِ جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام حضرتِ میکائیل عَلَیْہِ السَّلَام۔ لہٰذا غیرِ نبی و مَلَک (یعنی نبی اور فرشتے کے علاوہ) کے نام کے ساتھ عَلَیْہِ السَّلَام نہیں کہنا چاہئے۔“
(فتاویٰ امجدیہ جلد 4 صفحہ 243، 244، 245 مکتبہ رضویہ)
صورت مسئولہ میں"سیدنا مولائے کائنات مولا علی رضی اللہ تعالی عنہ لکھاجائے کہاجائے،
واللہ تعالی اعلم
وعلیکم السلام ورحمةاللہ وبرکاتہ،
الجواب بعون الملک الوھاب:
مقیم شخص مسافر امام کے پیچھے دو رکعت نماز ادا کرے اور جب امام سلام پھیر دے تو مقیم مقتدی کھڑا ہوجائے اور اپنی بقیہ دو رکعتیں پڑھ لے۔ ان دو رکعتوں میں قرات نہیں کرے گا بلکہ اتنی دیر چپ کھڑا رہے جتنی دیر سورۃ فاتحہ پڑھی جاتی ہے۔
کیونکہ وہ امام ہی کی اقتداء میں ہوتا ہے۔
نبئ کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے ہجرت کے بعد اہلِ مکہ کے ساتھ بحیثیت امام کے چار رکعات والی نماز پڑھی اور دو رکعات کے بعد سلام پھیر دیا پھر لوگوں کی طرف مخاطب ہو کر فرمایا
أتمو صلاتکم فأنا قوم سفر.
(ابو داود طيالسی، المسند : 113، 115، رقم : 840، 858)
’’تم لوگ اپنی اپنی نمازیں پوری کرو، میں مسافر ہوں۔‘‘
بہارشریعت میں ہے :
ادا اور قضا دونوں میں مقیم مسافر کی اقتدا کر سکتا ہے اور امام کے سلام کے بعد اپنی باقی دو رکعتیں پڑھ لے اور ان رکعتوں میں قراءت بالکل نہ کرے بلکہ بقدر فاتحہ چپ کھڑا رہے۔( بہار بحوالہ درمختار وغیرہ)
واللہ تعالی اعلم
x
Comments