فساد کے پھیلاؤ کا انجام
کہانی میں ایک لومڑی پر پتھر گرا اور اس کا دم کٹ گیا۔
دوسری لومڑی نے اس سے پوچھا:
"تم نے اپنا دم کیوں کٹوا دیا؟"
پہلی لومڑی نے جھوٹ بولا اور کہا:
"مجھے لگتا ہے جیسے میں ہوا میں اڑ رہی ہوں، یہ بہت مزے کی بات ہے!"
یہ سن کر دوسری لومڑی نے بھی اپنے دم کو کٹوا دیا، لیکن جب اسے شدید تکلیف ہوئی اور کوئی مزہ محسوس نہ ہوا، تو اس نے پہلی لومڑی سے پوچھا:
"تم نے مجھ سے جھوٹ کیوں بولا؟"
پہلی لومڑی نے کہا:
"اگر میں نے تمہیں سچ بتا دیا تو باقی لومڑیاں اپنے دم نہیں کٹوائیں گی اور وہ ہم پر ہنسیں گی۔"
پھر وہ دونوں ہر لومڑی کو اپنے دم کٹوانے کے فائدے بتانے لگیں، یہاں تک کہ زیادہ تر لومڑیاں دم کے بغیر ہو گئیں۔
اب جب وہ کسی لومڑی کو دم کے ساتھ دیکھتے، تو اس کا مذاق اڑاتے!
کہانی کا سبق:
جب معاشرے میں فساد عام ہو جاتا ہے، تو نیک لوگوں کو ان کی نیکی پر طعنے دیے جاتے ہیں۔
برے لوگ ان کی بہتری کو مذاق اور طنز کا نشانہ بناتے ہیں۔
قرآن بھی ہمیں اس حقیقت کی یاد دہانی کراتا ہے، جیسا کہ قوم لوط نے کہا:
"اِن کو اپنی بستی سے نکال دو، یہ تو بہت پاکیزہ بنتے ہیں!" (سورہ الاعراف: 82)
حقیقت:
جب بدی غالب آ جائے، تو اچھائی پر طنز اور نیکی کو عیب سمجھا جانے لگتا ہے۔
ہمیں حق پر ثابت قدم رہنا چاہیے، چاہے دنیا کتنی ہی طنز کرے یا مخالفت کرے۔
بہت خوبصورت اور گہری کہانی ہے، جو ایک اہم سبق دیتی ہے۔ یہ بات درست ہے کہ جب برائی اور فساد عام ہو جائے تو اچھائی کو دبانے کی کوشش کی جاتی ہے، اور نیک لوگوں کو ان کے عمل پر طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
یہ رویہ نہ صرف معاشرتی زوال کی علامت ہے بلکہ ایک ایسے امتحان کی بھی نشاندہی کرتا ہے جس میں حق پر قائم رہنے والے لوگوں کا صبر اور استقامت آزمائی جاتی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں بھی بار بار ہمیں یہ ہدایت دی ہے کہ صراطِ مستقیم پر چلنے والوں کو مشکلات اور آزمائشوں کا سامنا ضرور ہوگا، لیکن وہی لوگ کامیاب ہیں جو صبر اور یقین کے ساتھ حق کا ساتھ دیتے ہیں۔
آپ کی پیش کی گئی یہ کہانی نہ صرف سبق آموز ہے بلکہ موجودہ معاشرتی حالات پر ایک بہترین تنقید بھی ہے۔ ہمیں اس پیغام کو عام کرنا چاہیے تاکہ لوگ اپنی سوچ اور عمل کا جائزہ لے
سکیں۔
یہ کہانی دراصل ایک گہرے سماجی اور اخلاقی سبق پر مبنی ہے۔ اس میں "لومڑی" اور "دم" کو بطور علامت استعمال کیا گیا ہے، جہاں "لومڑی" معاشرے کے افراد کو اور "دم" ان کی روایات، اقدار یا نیکی کی علامت کو ظاہر کرتی ہے۔
کہانی کی وضاحت:
1. جھوٹ اور فریب کا آغاز:
پہلی لومڑی نے اپنی کمزوری کو چھپانے کے لیے جھوٹ کا سہارا لیا اور دوسروں کو قائل کیا کہ دم کٹوانا ایک بہتر عمل ہے۔
→ یہ ظاہر کرتا ہے کہ جب کوئی فرد اپنے گناہ یا غلطی کو چھپانے کے لیے جھوٹ بولتا ہے، تو وہ دوسرے افراد کو بھی برائی کی طرف راغب کرتا ہے تاکہ وہ اکیلا شرمندہ نہ ہو۔
2. اندھی تقلید:
دوسری لومڑی نے بغیر سوچے سمجھے پہلی لومڑی کی بات مان لی اور اپنی دم کٹوا دی۔
→ یہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ معاشرے میں اکثر لوگ بغیر تحقیق کے دوسروں کی تقلید کرتے ہیں، چاہے وہ غلط ہو۔
3. فساد کا پھیلاؤ:
جب زیادہ لومڑیوں نے اپنی دم کٹوا لی تو وہ نئی حقیقت کو عام کرنے لگیں اور دم رکھنے والی لومڑیوں کا مذاق اڑانے لگیں۔
→ اس کا مطلب ہے کہ جب برائی یا فساد عام ہو جائے تو لوگ نیکی اور بھلائی کو عیب سمجھنے لگتے ہیں اور ان کا مذاق اڑاتے ہیں۔
---
سبق کی وضاحت:
1. فساد اور برائی کے اثرات:
برے لوگ اپنی برائی کو چھپانے کے لیے دوسروں کو بھی اسی راستے پر ڈال دیتے ہیں۔ ان کا مقصد اپنے عمل کو نارمل دکھانا ہوتا ہے تاکہ کوئی ان پر انگلی نہ اٹھا سکے۔
2. نیکی پر استقامت:
معاشرہ جب برائی کو اپنائے اور اچھائی کو عجیب یا مشکل بنا دے، تب بھی ہمیں نیکی کے راستے پر ڈٹے رہنا چاہیے، چاہے لوگ ہمارے خلاف ہو جائیں۔
3. قرآنی تعلیمات کا عکس:
قرآن میں قوم لوط کی مثال دی گئی ہے، جہاں برائی کرنے والے نیک لوگوں کو "پاکیزہ بننے" پر بستی سے نکالنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ یہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ حق پر قائم رہنا ہمیشہ آسان نہیں ہوتا، لیکن یہ ضروری ہے۔
4. سماجی اصلاح کی ضرورت:
اس کہانی سے یہ سبق بھی ملتا ہے کہ ہمیں سچ اور نیکی کی تعلیم عام کرنی چاہیے تاکہ معاشرے میں اندھی تقلید، جھوٹ اور فساد کا خاتمہ ہو۔
---
عملی پیغام:
جھوٹ اور برائی کے خلاف آواز اٹھائیں۔
اپنے اصولوں اور نیکی پر ثابت قدم رہیں، چاہے مخالفت کتنی ہی زیادہ ہو۔
تقلید کرنے سے پہلے ہر عمل کا جائزہ لیں۔
حق اور سچائی کو اپنانے میں کبھی شرمندگی محسوس نہ کریں۔
یہی وہ نکتہ ہے جس
ے ہر شخص کو سمجھنے اور معاشرے میں عام کرنے کی ضرورت ہے۔
Comments