Skip to main content

ذمہ داری اور غرور کے درمیان فرق

 🐕 پرانے زمانے میں مال برداری اور پبلک ٹرانسپورٹ کے طور پر بیل گاڑیاں استعمال ھوا کرتی تھیں۔ 

Ikram Ullah Khan Yousafzai 


ہر بیل گاڑی کے ساتھ ایک کتا ضرور ھوتا تھا جب کہیں سنسان بیابان میں مالک کو رکنا پڑتا تو اس وقت وہ کتا سامان کی رکھوالی کیا کرتا تھا


جس جس نے وہ بیل گاڑی چلتی دیکھی ھوگی تو اس کو ضرور یاد ھوگا کہ وہ کتا بیل گاڑی کے نیچے نیچے ھی چلا کرتا تھا۔

🦮

اُس کی ایک خاص وجہ ھوتی تھی کہ جب مالک چھوٹا کتا رکھتا تھا تو سفر کے دوران اُس کتے کو گاڑی کے ایکسل کے ساتھ نیچے باندھ دیا کرتا تھا جب وہ بڑا ھو کر اسکا اتنا عادی ھو جاتا تھا تو اپنی اسی جگہ پر بغیر زنجیر کے بھی چلتا رہتا تھا

🐕‍🦺


ایک دن کتے نے سوچا کہ جب مالک گاڑی روکتا ہے تو سب سے پہلے بیل کو پانی پلاتا ہے اور چارا ڈالتا ہے پھر خود کھاتا ہے اور سب سے آخر میں مجھے کھلاتا ہے

حالانکہ گاڑی تو ساری کی ساری میں نے اپنے اوپر اُٹھائی ھوتی ہے


دراصل اس کتے کو گڈھ کے نیچے چلتے ھوئے یہ گمان ھو گیا تھا کہ یہ گاڑی میں نے اُٹھا رکھی ہے

🐃

وہ اندر ھی اندر کُڑھتا رہتا جلتا رھتا ہھر ایک دن اس نے فیصلہ کیا کہ اچھا پھر ایسا ہے تو ایسا ھی سہی، میں نے بھی آج راستے میں ھی گاڑی چھوڑ دینی ہے۔ جب آدھا سفر طے ھوا تو کتا نیچے بیٹھ گیا اور گاڑی آگے نکل گئی کتا حیران پریشان اس کو دیکھتا رہ گیا.۔

🐕


بتانا یہ مقصود ہے کہ ایسے ھی بہت سے کردار آپ کو اب تک ملتے چلے آئے ہیں جو اس سسٹم سے چمٹے ھوئے ہیں اور اس گمان میں ہیں کہ سارا بوجھ تو انہوں نے اٹھا رکھا ہے وہ نہ ھونگے تو سارا سسٹم رک جائے گا۔ حالانکہ ایسا کچھ بھی نہیں.. 


یاد رکھیں زندگی کبھی نہیں رکتی، کہانی میں کردار بدلتے رہتے ہیں مگر زندگی چلتی رہتی ہے ۔ دماغوں سے یہ خناس نکال دینا چاہیئے۔ کہ میں ھی سب کچھ ھوں ۔۔ 


1. خود ساختہ اہمیت کا تصور:

بہت سے افراد یہ گمان رکھتے ہیں کہ وہ کسی بھی نظام یا ادارے کے لیے ناگزیر ہیں، حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہے۔ نظام ان کے بغیر بھی چلتا رہتا ہے، اور کردار بدلتے رہتے ہیں۔



2. فرض اور حقیقت کا فرق:

جیسے کتے کو یہ غلط فہمی تھی کہ گاڑی اس کی محنت کی وجہ سے چل رہی ہے، ویسے ہی لوگ بعض اوقات اپنی ذمہ داریوں اور حقیقت کے درمیان فرق کو نہیں سمجھ پاتے۔



3. زندگی کا تسلسل:

کہانی ہمیں یہ پیغام دیتی ہے کہ زندگی کسی ایک انسان پر منحصر نہیں ہوتی۔ کوئی شخص چلا بھی جائے تو نظام کا پہیہ چلتا رہتا ہے۔



4. عاجزی کا درس:

یہ کہانی ہمیں سکھاتی ہے کہ غرور اور خود کو ضرورت سے زیادہ اہم سمجھنے کا رویہ غیر ضروری ہے۔ ہر انسان کو اپنی ذمہ داریوں کو عاجزی کے ساتھ انجام دینا چاہیے


نتیجہ:


زندگی کبھی کسی ایک شخص پر منحصر نہیں ہوتی۔ وقت کے ساتھ ساتھ لوگ آتے ہیں اور جاتے ہیں، لیکن زندگی اپنی رفتار سے چلتی رہتی ہے۔ لہٰذا ہمیں اپنے کردار کو دیانت داری اور عاجزی کے ساتھ نبھانا چاہیے اور خود کو ضرورت سے زیادہ اہم سمجھنے کی غلطی سے بچنا چاہیے۔


یہ تحریر ہمیں عملیت پسندی، عاجزی اور حقیقت پسندی کا سبق دیتی ہے، جو زندگی میں سکون اور 

کامیابی کے لیے ضروری ہے۔

اس تحریر کی وضاحت انسانی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتی ہے، خاص طور پر ان رویوں پر جو ہم اپنی اہمیت کے بارے میں رکھتے ہیں۔ ذیل میں اس کہانی کے بنیادی نکات کو مزید تفصیل سے بیان کیا گیا ہے:

1. کہانی کا مرکزی خیال:


کتا، جو بیل گاڑی کے نیچے چلتا ہے، یہ سمجھنے لگتا ہے کہ گاڑی کا وزن وہی اُٹھائے ہوئے ہے۔ اس غلط فہمی کی بنیاد اس کی اپنی محدود سوچ ہے۔ وہ یہ نہیں دیکھ پاتا کہ اصل بوجھ بیل اُٹھا رہا ہے، اور گاڑی کا نظام اس کے بغیر بھی چل رہا ہے۔


سبق:

بعض اوقات ہم اپنی حیثیت کو ضرورت سے زیادہ بڑھا چڑھا کر دیکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہماری غیر موجودگی میں نظام رک جائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر فرد کا کردار عارضی ہوتا ہے، اور نظام کا تسلسل افراد کی تبدیلیوں سے متاثر نہیں ہوتا۔


2. خود ساختہ اہمیت کا تصور:


یہ کہانی ان افراد کی نمائندگی کرتی ہے جو کسی بھی ادارے، خاندان یا سسٹم میں اپنی حیثیت کو ناگزیر سمجھتے ہیں۔ وہ یہ ماننے سے انکار کر دیتے ہیں کہ سسٹم ان کے بغیر بھی چل سکتا ہے۔


مثال:


ایک ملازم سمجھتا ہے کہ اس کے بغیر کمپنی کام نہیں کرے گی۔


ایک خاندان کا فرد سوچتا ہے کہ وہی پورے گھر کو سنبھال رہا ہے۔



حقیقت:

نظام کا انحصار کسی ایک فرد پر نہیں ہوتا۔ لوگ بدل جاتے ہیں، لیکن نظام اپنا تسلسل برقرار رکھتا ہے۔

3. عاجزی اور حقیقت پسندی کا درس:


کتا اس وقت حیران رہ جاتا ہے جب گاڑی اس کے رکنے کے باوجود چلتی رہتی ہے۔ یہ اس کی سوچ کے برعکس ہے اور اسے اپنی غلط فہمی کا اندازہ ہوتا ہے۔


پیغام:


ہمیں اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنا چاہیے اور انہیں دیانت داری سے ادا کرنا چاہیے۔


لیکن یہ بھی ماننا چاہیے کہ ہم واحد اہم عنصر نہیں ہیں۔


ہر فرد اور ہر کردار وقتی ہے، اور نظام ہماری غیر موجودگی میں بھی آگے بڑھتا رہے گا۔

4. زندگی کا تسلسل:


یہ کہانی اس بات پر زور دیتی ہے کہ زندگی کسی ایک انسان پر منحصر نہیں ہے۔ وقت کے ساتھ کردار بدلتے رہتے ہیں، لیکن زندگی اپنی رفتار سے جاری رہتی ہے۔


نتیجہ:

اپنے آپ کو سسٹم کا محور سمجھنے کے بجائے، ہمیں ایک حصہ دار کے طور پر کام کرنا چاہیے۔ اپنے کام کو مکمل دیانت داری اور عجز کے ساتھ سرانجام دینا ہی اصل کامیابی ہے


عملی سبق:


1. غرور چھوڑیں:

کسی بھی سسٹم کا حصہ بن کر اپنی اہمیت کو بڑھا چڑھا کر نہ دیکھیں۔


2. عاجزی اپنائیں:

اپنے کام کو اپنی ذمہ داری سمجھ کر انجام دیں، لیکن اپنی حیثیت کا غلط اندازہ نہ لگائیں۔


3. حقیقت تسلیم کریں:

یہ تسلیم کریں کہ دنیا کا نظام آپ کے بغیر بھی چلتا رہے گا۔

خلاصہ:


زندگی ہمیں سکھاتی ہے کہ ہر انسان کی جگہ کوئی دوسرا لے سکتا ہے۔ اپنی خود ساختہ اہمیت کے گمان سے باہر نکلیں اور نظام کی حقیق

ت کو سمجھیں۔ یہ نہ صرف آپ کو سکون دے گا بلکہ آپ کے رویے کو بھی بہتر بنائے گا۔


Comments

Popular posts from this blog

یادداشت کیا ہے اور کیسے کام کرتی ہے؟

یادداشت کیا ہے اور کیسے کام کرتی ہے؟  میموری کیا ہے اور یہ کیسے کام کرتی ہے؟  ہمارے ذہن میں یادداشت memory کے بننے کا عمل انتہائی حیرت انگیز اور بے حد دلچسپ ہے۔ اس پر ایک گہری نظر نہ ڈالنا نا انصافی ہوگی ۔  ہمارا دماغ ایک ریکارڈنگ ڈیوائس کے طور پر بھی کام کرتا ہے۔ اسے Recording‏ ‏cognitive بھی کہہ سکتے ہیں طبی اصطلاح میں اسے Process of Mind‏ ‏process کہا جاتا ہے۔ ویسے تو یہ بہت ہی پیچیدہ عمل ہے مگر موضوع کے اعتبار سے مطلب کی بات یہ ہے کہ ہمارا ذہن حواس خمسہ سے ملنی والی ایک ایک خبر کو، ہر ایک احساس ہر جذبے کو ریکارڈ کر رہا ہے محفوظ کر رہا ہے اور ان احساسات و جذبات کو معلومات data‏  میں تبدیل کر رہا ہے۔  یہ بے حد تیز رفتار عمل ہے کہ ہمیں اس کا احساس تک نہیں ہوتا کہ سب محفوظ کیا جارہا ہے۔ سارا دن جو مشاہدات حاصل ہوتے ہیں خواہ وہ دیکھنے سے ہوں ، چکھنے سے تعلق رکھتے ہوں ، سونگھنے سے عمل میں آئیں، جو کچھ دیکھا سنا ہو اور جو بھی محسوس کیا ہو وہ عارضییادداشت short term memory کی شکل میں محفوظ کیا جاتا ہے اور رات کو نیند کے دوران غیر ضروری یادیں memories ختم delete کر د...

قادیانی ایجنٹ عمران نیازی کی کرطوت

 https://a.co/d/3npI4rg جولوگ کہتےہیں کہ عمران نیازی توبہت اچھا آدمی تھاآج یہ بھی قوم کےسامنےآگیاہےکہ آج وفاق المدارس کےصدرمفتی تقی عثمانی صاحب اور قاری حنیف جالندھری صاحب نےمولنافضل الرحمان صاحب کی معیت میں وزیراعظم پاکستان شہبازشریف سےملاقات کی۔جن نکات پربات پربات ہوٸ آپ کواندازہ ہوجاٸگاکہ عمران نیازی مدارس کیلۓکیاکیاپریشانیاں کھڑی کرگیاہے۔سب سےپہلےمدارس کےبینک اکاٶنٹ بندکردٸےتھےجو ابھی تک بندپڑےہیں۔نۓمدارس کی رجسٹریشن بندکی ہوٸ تھی کہ کوٸ نیامدرسہ نہیں بناۓگاتقریباآج علمانے12نکات وزیراعظم شہبازشریف کےسامنےرکھےہیں کہ انکوفی الفور حل کیاجاۓ۔اب بھی یوتھی بولیں گےکہ عمران نیازی اسلام کاٹھیکدار تھا۔جسکو یقین نہ آۓ وہ قاری حنیف جالندھری صاحب کایہ آڈیوپیغام سن لےجو انہوں نےمدارس کےعلمإ کوبھیجاہے۔ <script type='text/javascript' src='//pl19722811.highrevenuegate.com /ca/ad/cf/caadcfb1020690554208b1c658527569.js'></script> https://www.highrevenuegate.com/fjnc7zsbq?key=65daa712736ff3f3ba97ed9dd1c7c4a5

All-in-One Smart Home Gym, Smart Fitness Trainer Equipment, Total Body Resistance Training Machine, Strength Training Machine

  About this item All-in-One Smart Home Gym:Speediance is revolutionizing the way you work out by delivering all the benefits of the gym straight to your home. Our state-of-the-art machine combines cardio and strength training so you can achieve a full-body workout without leaving your living room. High-Performance Engines:Speediance’s digital weight system provides convenience and reliability. Limited Space, Unlimited Possibility:Speediance provides up to 220 lbs of adaptive resistance, 630+ moves, 230+ classes, and dynamic weight modes for unparalleled full-body training. With Freelift and partner mode, you can customize your workout experience like never before. Plus, enjoy the convenience of cardio and strength training in one machine, all while taking up minimal space in your home. Take Your Cardio up a Notch:Elevate your cardio training with Speediance's innovative Ski Mode. With two ski handles and 10 customizable height settings, this mode transforms your workout into a dyn...