"اے ایمان والو! اگر تم اللہ کے دین کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہیں ثابت قدم رکھے گا۔" (سورہ محمد: 7)اس آیتِ مبارکہ میں اللہ کے وعدۂ حق کی جھلک دکھائی دیتی ہے، ایسا وعدہ جو دلوں کو یقین کی ٹھنڈی بارش سے سیراب کرتا ہے اور روحوں میں استقامت کے پختہ جڑیں جما دیتا ہے۔شیخ السعدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:"اللہ کی مدد ان لوگوں کے لیے ہے جو اس کے دین کی حمایت میں کھڑے ہوتے ہیں، دعوتِ حق کا علم بلند کرتے ہیں، اور اس کے دشمنوں کے خلاف میدانِ عمل میں ڈٹے رہتے ہیں۔ اللہ انہیں صبر، سکون اور استقامت سے نوازتا ہے اور ان کے دشمنوں پر ان کی مدد فرماتا ہے۔"یہ ایک الٰہی اصول ہے، جس میں نہ کوئی خامی ہے نہ کوئی کمی، اور نہ اس پر کبھی شک کیا جا سکتا ہے۔ اگر ہم اپنے دین کی نصرت کے لیے اٹھ کھڑے ہوں، صبر کے چراغ روشن کریں، اور حق کے راستے میں اپنا سب کچھ قربان کریں، تو اللہ کی مدد کا وعدہ کبھی خالی نہیں ہوتا۔ اگر نصرت میں دیر ہو تو یہ تاخی
ر آزمائش نہیں بلکہ استقامت اور اخلاص کا امتحان ہے۔یہ آیت مبارکہ (سورہ محمد: 7) اللہ تعالیٰ کے ایک عظیم وعدے کی یاد دہانی کراتی ہے جو ایمان والوں کے لیے حوصلہ، یقین اور استقامت کا ذریعہ ہے۔ اس آیت میں دو اہم نکات سامنے آتے ہیں:1. اللہ کے دین کی نصرت کی شرط:اللہ تعالیٰ نے واضح فرمایا کہ اگر اہل ایمان اللہ کے دین کی مدد کریں، یعنی اس کے احکامات کو نافذ کریں، اس کی دعوت کو عام کریں، اور دینِ حق کے دشمنوں کے خلاف میدانِ عمل میں آئیں، تو اللہ اپنی نصرت اور مدد عطا کرے گا۔شیخ السعدی رحمہ اللہ کے قول کے مطابق، یہ نصرت ان کے لیے مخصوص ہے جو اللہ کے دین کی خدمت میں اخلاص اور استقامت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
2. مدد اور استقامت کا وعدہ:اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ اپنے دین کی نصرت کرنے والوں کو نہ صرف دشمنوں پر غلبہ عطا کرے گا بلکہ ان کے دلوں کو ثابت قدمی، صبر، سکون اور حوصلے سے بھی مضبوط کرے گا۔ یہ اللہ کی رحمت کا خاص پہلو ہے جو مشکلات میں مومنوں کو حوصلہ دیتا ہے اور ان کے ارادوں کو مزید مضبوط کرتا ہے۔
وضاحت:اللہ کے دین کی مدد کا مطلب:اللہ کے دین کی مدد میں شامل ہے دین کے احکامات پر عمل کرنا، حق کی دعوت دینا، باطل کا رد کرنا، اور دین کے خلاف سازشوں کا مقابلہ کرنا۔ یہ مدد عملی، مالی اور زبانی ہر طرح سے ہو سکتی ہے۔اللہ کی مدد کا مظہر:اللہ کی مدد کئی صورتوں میں ظاہر ہو سکتی ہے، جیسے کہ دشمنوں پر غلبہ، دلوں میں سکون، مومنوں کے اتحاد میں اضافہ، اور آزمائشوں میں استقامت۔ یہ اللہ کی قدرت اور حکمت کا مظہر ہے کہ وہ نصرت کے ساتھ ساتھ صبر کا بھی اجر عطا کرتا ہے۔آزمائش میں تاخیر کا مقصد:اگر نصرت میں تاخیر ہو، تو یہ مومنوں کے اخلاص اور صبر کی آزمائش ہے۔ یہ مومنوں کو یہ سمجھانے کے لیے ہے کہ اللہ کی مدد کے لیے شرط صرف دعا یا خواہش نہیں بلکہ خالص نیت، مسلسل جدوجہد اور صبر ہے۔
عملی سبق:ہمیں اپنے روزمرہ کے اعمال میں اللہ کے دین کی نصرت کو شامل کرنا چاہیے۔دین کے لیے جدوجہد میں اگر مشکلات آئیں تو صبر اور استقامت کا دامن تھامنا ضروری ہے۔اللہ کے وعدے پر مکمل یقین رکھنا چاہیے کہ وہ مومنوں کو کبھی تنہا نہیں چھوڑے گا۔
یہ آیت مبارکہ ہمیں اللہ پر مکمل یقین رکھنے اور دین کے لیے ہر ممکن کوشش کرنے کی تعلیم دیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کے دین کی نصرت کرنے اور اس کے وعدوں پر یقین رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔x
ر آزمائش نہیں بلکہ استقامت اور اخلاص کا امتحان ہے۔
Comments