ہم اپنے ماں باپ پے سب سے بڑا ظلم کیا کرتے ہیں۔؟
ہم ان کے سامنے"بڑے" بن جاتے ہیں
"سیانے" ہو جاتے ہیں
اپنے تحت بڑے "پارسا نیک اور پرہیزگار" بن جاتے ہیں
وہی ماں باپ جنہوں نے ہمیں سبق پڑھایا ہوتا ہے
انھیں "سبق" پڑھانے لگتے ہیں
ابا جی یہ نہ کرو یہ غلط ہے
آماں جی یہ آپ نے کیا کیا
آپ کو نہیں پتا ایسے نہیں کرتے
ابا جی آپ یہاں کیوں گئے ۔
اماں جی پھر گڑبڑ کر دی آپ نے
سارے کام خراب کر دیتی ہیں آپ
اب کیسے سمجھاؤں آپ کو
جانتے ہو
ہمارا یہ "بڑا پن یہ سیانا پن" ہمارے اندر کے "احساس" کو مار دیتا ہے
وہ احساس جس سے ہم یہ محسوس کر سکیں
کہ ہمارے ماں باپ اب بالکل بچے بن گئے ہیں۔
وہ عمر کے ساتھ ساتھ بے شمار ذہنی گنجلگوں سے آزاد ہوتے جا رہے ہیں
چھوٹی سی خوشی
تھوڑا سا پیار
ہلکی سی مسکراہٹ
انھیں نہال کرنے کے لئے کافی ہوتی ہے
انھیں "اختیار" سے محروم نہ کریں
"سننے" کا اختیار
"کہنے" کا اختیار
"ڈانٹنے" کا اختیار
"پیار" کرنے کا اختیار
یہی سب انکی خوشی ہے
چھوٹی سی دنیا ہے
ہمارے تلخ رویوں سے وہ اور کچھ سمجھیں یا نہ سمجھیں
یہ ضرور سمجھ جاتے ہیں ک اب وقت ان کا نہیں رہا
وہ اپنے ہی خول میں قید ہونے لگتے ہیں
اور بالآخر رنگ برنگی ذہنی اور جسمانی بیماریوں کا شکار ہونے لگتے ہیں
اس لئے
اگر ماں باپ کو خوش رکھنا ہے
تو ان کے سامنے زیادہ "سیانے" نہ بنیں
"بچے" بن کے رہیں
تا کے آپ خود بھی "بچے" رہیں
یہ تحریر درحقیقت ماں باپ کے ساتھ ہمارے رویے کی گہرائی کو سمجھانے کی کوشش کرتی ہے۔ اس میں یہ وضاحت کی گئی ہے کہ جیسے جیسے ماں باپ کی عمر بڑھتی ہے، وہ جسمانی اور ذہنی طور پر کمزور ہو جاتے ہیں۔ اس وقت انہیں زیادہ محبت، احترام اور اپنائیت کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن ہم، اولاد، لاشعوری طور پر ان کے ساتھ ایسا سلوک کرتے ہیں جیسے ہم ان سے زیادہ جانتے ہیں، اور یوں ہم ان کے دل کو تکلیف پہنچاتے ہیں۔
تحریر کے اہم نکات:
1. ماں باپ کے سامنے "بڑا" بننا:
ہم ان کے سامنے ایسے بات کرتے ہیں جیسے ہم زیادہ سمجھدار اور عقل مند ہیں۔ ہم انہیں نصیحتیں کرنے لگتے ہیں، ان کے فیصلوں پر سوال اٹھاتے ہیں، اور ان کی غلطیوں کو نمایاں کرتے ہیں، حالانکہ یہ وہی ماں باپ ہیں جنہوں نے ہمیں زندگی کے سبق سکھائے۔
2. ماں باپ کی حساسیت کو نظرانداز کرنا:
جب ہم ان کی باتوں یا رویے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں، تو ان کے دل میں یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ وہ اب بوجھ ہیں یا ان کا وقت گزر چکا ہے۔ یہ احساس انہیں مزید جذباتی اور جسمانی مسائل میں مبتلا کر دیتا ہے۔
3. بچوں کا کردار ادا کرنا:
تحریر کا پیغام یہ ہے کہ ہمیں اپنے ماں باپ کے سامنے بچے بن کر رہنا چاہیے۔ ان کے جذبات کا خیال رکھنا، ان کی بات سننا اور انہیں وہ اختیار دینا جو وہ اپنی زندگی میں چاہتے ہیں۔
4. اختیار دینے کی اہمیت:
تحریر ہمیں یہ باور کراتی ہے کہ ماں باپ کو ان کے "اختیار" سے محروم نہ کریں۔ ان کے بولنے، سننے، ڈانٹنے اور پیار کرنے کے اختیار کو چھیننے کے بجائے انہیں عزت دیں۔ یہ چھوٹے چھوٹے کام ان کی زندگی کو خوشیوں سے بھر سکتے ہیں۔
حاصلِ کلام:
ماں باپ کو ان کے بڑھاپے میں سہارا دیں، ان کی عزت کریں اور ان کے دل میں یہ احساس پیدا نہ ہونے دیں کہ وہ آپ کے لیے بوجھ ہیں۔ ان کے سامنے عاجزی اختیار کریں اور ان کی زندگی کو محبت اور سکون سے بھرنے کی کوشش کریں۔ یہی ایک حقیقی اولاد کا فرض ہے اور یہی الل
ہ کی رضا کا ذریعہ ہے۔
x
Comments