ایک استانی کہتی ہیں، "میں کلاس میں داخل ہوئی اور پیچھے سے دروازہ بند کر لیا۔ میں نے فیصلہ کیا کہ آج اپنا سارا غصہ بچوں پر
نکالوں گی۔واقعی، جس بچے نے ہوم ورک نہیں کیا تھا، اسے پکڑا اور مارا!ایک بچے کو میز پر سوئے ہوئے پایا، اس کا بازو پکڑا اور کہا: "تمہارا ہوم ورک کہاں ہے؟"وہ بچہ ڈر کے پیچھے ہٹ گیا اور لرزتے ہوئے بولا بھول گیا ہوں مجھے معاف کر دیںمیں نے اسے پکڑا اور اپنے سارے غصے اور وہ دباؤ، جو میرے شوہر کی وجہ سے تھا، اس پر نکال دیا۔پھر میں نے ایک بچے کو کھڑا پایا، وہ میرے قریب آیا، میرا دامن کھینچتے ہوئے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ جھک کر اس کی بات سنوں۔میں غصے سے مڑی، جھکی، اور کہا: "ہاں، بولو، کیا ہے؟"وہ مسکرا کر بڑی معصومیت سے کہتا ہے:"کیا ہم کلاس سے باہر بات کر سکتے ہیں؟ یہ بہت ضروری ہے۔"میں نے اسے بے صبری سے دیکھا اور سوچا کہ ضرور کوئی معمولی بات ہوگی، مثلاً یہ کہ کسی ساتھی نے اس کا پین چوری کر لیا ہوگا۔لیکن جب میں نے اس کی بات سنی تو میں اس کی ذہانت سے حیرت زدہ رہ گئی۔ اس کے پاس بے شمار تربیتی معلومات تھیں۔وہ ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ بولا: "دیکھیں، ٹیچر، آپ بہت اچھی ہیں، اور ہم سب آپ سے محبت کرتے ہیں۔ لیکن میرا وہ ساتھی، جسے آپ نے آخر میں مارا، وہ یتیم ہے۔ اور اس کی ماں اسے ہمیشہ مارتی ہے جب وہ کوئی غلطی کرتا ہے۔وہ اسے غلط طریقے سے تربیت دیتی ہے، اسی لیے وہ اکثر چیزیں بھول جاتا ہے اور ہر چیز سے ڈرتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ ہمارے ساتھ کھیلنے سے بھی ڈرتا ہے، کیونکہ اسے ڈر ہوتا ہے کہ ہم اسے ماریں گے۔میں اس کا دوست ہوں اور ہمیشہ اس کے ساتھ رہتا ہوں۔ اس نے مجھے بتایا کہ اسے مار کھانا بالکل پسند نہیں۔ اگر آپ اس کا جسم دیکھیں تو آپ کو اس پر مار کے نشانات ملیں گے، جو اس کی ماں نے کیے ہیں۔"پھر وہ بچے نے کہا:"کیا آپ ہماری ماں اور مربی بن سکتی ہیں؟ اور براہِ کرم، جب آپ کلاس میں آئیں تو اپنا غصہ اور پریشانی باہر چھوڑ کر آئیں، کیونکہ ہم آپ سے محبت کرتے ہیں اور آپ سے بہت کچھ سیکھتے ہیں۔"میں حیرانی سے اسے دیکھتی ہوں اور کہتی ہوں: "تم اتنے بڑے لوگوں سے کیسے بات کر لیتے ہو؟"تو وہ جواب دیتا ہے: "میری ماں نے ہمیشہ مجھے اچھا گمان کرنا سکھایا ہے، اور یہ بھی کہا ہے:‘تمہیں نہیں معلوم کہ سامنے والے کس حالت میں ہیں، اس لیے اپنا غصہ اور پریشانی ایک طرف رکھو اور ان کے ساتھ نرمی سے پیش آؤ۔دنیا میں بہت سی تکلیف دہ چیزیں ہیں۔’انہوں نے یہ بھی کہا:‘اگر تم کسی کو پریشان دیکھو، تو اس سے معافی مانگو، خواہ تم اس کی تکلیف کے ذمہ دار نہ ہو۔’پھر وہ مجھے گلے لگاتا ہے اور کہتا ہے:‘یقیناً آپ کسی وجہ سے ناراض ہیں، اسی لیے آج ہمیں مارا۔ٹیچر، میں آپ سے معذرت خواہ ہوں، براہِ کرم ناراض نہ ہوں، کیونکہ آپ بہت اچھی ہیں۔’میں حیرانی کے عالم میں کھڑی تھی، اور ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ میں بچی ہوں اور وہ میرا استاد اور مربی ہے۔ کیا آج بھی ایسی تربیت ہوتی ہے؟اور کیا ایسی مائیں موجود ہیں جو اپنے بچوں کی اس قدر عمدہ تربیت کرتی ہیں؟"میں نے اس بچے سے کہا: "ٹھیک ہے، میں اسے کیسے مناؤں؟"تو وہ بولا:"یہ لیں، چاکلیٹ! وہ اسے پسند کرتا ہے۔ اگر وہ آپ کو معاف کر دے تو اپنے رب سے استغفار کریں اور ‘سبحان اللہ وبحمدہ’ کہیں تاکہ جنت میں آپ کے لیے ایک درخت اگے۔"میں نے کہا: "جیسے دنیا میں درخت ہیں؟"وہ بولا: "میری ٹیچر، جنت کے درخت دنیا کے درختوں جیسے نہیں ہوتے۔میری ماں نے بتایا کہ جنت کے درخت کی پھل بہت نرم، بڑے اور شہد سے بھی زیادہ میٹھے ہوتے ہیں، اور ان میں کوئی بیج نہیں ہوتا۔"میں نے پوچھا: "انس، کیا میں تمہاری ماں کو کوئی تحفہ دے سکتی ہوں؟"وہ بولا: "ہاں، مگر وہ ہمیشہ کہتی ہیں کہ ‘انس میرا تحفہ ہے۔’"میں نے کہا: "واقعی، تم ایک بہت بڑا تحفہ ہو اور بہت پیارے بچے ہو۔"انس نے کہا: "چلیں، آئیں احمد کو منائیں۔ میرے پاس پانچ روپے ہیں، اس سے چاکلیٹ خرید لیں اور احمد کو دیں، اور کہہ دیں کہ آپ نے اسے اس کے لیے خریدا ہے۔"میں نے انس سے کہا: "تمہاری ماں واقعی ایک عظیم خاتون ہیں، وہ جنت کی حقدار ہیں۔"وقت گزرتا گیا۔"مس ریحام، آپ کیسی ہیں؟"میں نے مڑ کر دیکھا تو انس تھا، اب ایک جوان لڑکا، عینک پہنے کھڑا تھا اور اس کی ماں اس کے ساتھ تھی، جن کے چہرے پر نور تھا۔بعد میں انس کی ماں میرے لیے ایک تحفہ لے کر آئیں اور کہا:"آپ انس کی استاد تھیں، یہ تحفہ میری طرف سے قبول کریں۔آپ نے جو اچھائی انس کو سکھائی، یقیناً اس میں آپ کا بھی حصہ ہے۔"میں نے حیرانی سے کہا: "کیسے؟"وہ بولیں:"الحمدللہ، میرا بیٹا اب ڈینٹل کالج میں لیکچرر ہے۔"میری آنکھوں میں آنسو تھے۔ میں نے کہا:"آپ کا شکریہ، یہ ہدیے تو آپ جیسے لوگوں کے لیے ہیں۔آپ سمجھتی ہیں کہ آپ نے صرف انس کی تربیت کی؟حقیقت میں، آپ کی تربیت نے مجھے بھی سدھار دیا۔آپ کے بیٹے نے مجھے سالوں پہلے ایک سبق دیا، جس نے میری زندگی بدل دی۔اسی کے باعث میں نے اپنے بچوں کی اچھی تربیت کی، اور میرا ازدواجی رشتہ بھی بہتر ہو گیا۔"حکمت:نیک بیوی معاشرے کی جنت بنانے کے لیے ایک مضبوط بنیاد ہے۔اور گھریلو عورت کے کردار کو معمولی نہ سمجھیں، کیونکہ وہ ایک پوری نسل کی مربی ہوتی ہے۔اگر آپ نے کہانی پڑھ لی ہے تو صرف پڑھ کر نہ جائیں، اپنی پسند کا اظہار کریں اور"لا إله إلا الله محمد رسول الله"کا ذکر کریں، کیونکہ یہ ساتوں آسمانوں اور زمین سے زیادہ وزنی ہے۔اور مزید قصے سننے کے لیے مجھے فالو کریں۔یاد دہانی:نبی ﷺ نے فرمایا:"صدقہ دینے سے مال کبھی کم نہیں ہوتا۔"یاد رکھیں، جو کچھ آپ خرچ کریں یا شیئر کریں، اس کا اثر آپ کی زندگی میں برکت، صحت، رزق میں اضافہ، اور دل کی خوشی کی صورت میں ظاہر ہوگا۔اس لیے دینے میں کبھی ہچکچائیں نہیں، کیونکہ عطا خیر کو کئی گنا بڑھا دیتی ہے۔اس کہانی میں ایک استاد کی ذاتی جدوجہد، غصہ اور مسائل ہیں، لیکن وہ ایک بچے کے ذریعے اس اہم سبق کو سیکھتی ہے کہ نرمی، محبت اور معاف کرنا کس طرح زندگیوں کو بدل سکتا ہے۔ اس کہانی میں چند اہم پہلو ہیں جنہیں سمجھنا ضروری ہے:1. غصہ اور ذاتی مسائل کا اثراس کہانی کا آغاز ایک استاد سے ہوتا ہے جو اپنی ذاتی زندگی کی پریشانیوں اور غصے کو بچوں پر نکالنے کا فیصلہ کرتی ہے۔ وہ بچوں کو مارتی ہے اور ان کے ساتھ سختی سے پیش آتی ہے۔ لیکن جب ایک بچہ، انس، اس کی حالت اور غصے کا سبب سمجھتا ہے، تو وہ اس سے نرمی سے بات کرتا ہے اور اسے بتاتا ہے کہ اس کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ اس میں ایک اہم سبق ہے کہ اپنے ذاتی مسائل کو بچوں یا دوسروں پر نہیں نکالنا چاہیے، کیونکہ ان کے ذہن اور دل پر اس کا گہرا اثر پڑتا ہے۔2. بچوں کی معصومیت اور حکمتانس کا کردار یہاں بہت اہم ہے۔ وہ ایک بچہ ہونے کے باوجود اس قدر بالغ اور سمجھدار ہے کہ وہ استاد کو نصیحت کرتا ہے کہ غصہ اور پریشانی کو ایک طرف رکھ کر لوگوں کے ساتھ نرمی سے پیش آنا چاہیے۔ انس کی تربیت میں اس کی ماں کا کردار ہے جو اسے اچھے اخلاق سکھاتی ہے۔ انس کی معصومیت میں جو حکمت ہے، وہ اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ بچوں میں بہت ساری چیزیں سیکھنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔3. والدین اور اساتذہ کا کردارانس کی ماں ایک عظیم مربی ہے، اور اس کی تربیت کا اثر انس پر اتنا گہرا ہے کہ وہ نہ صرف اپنی زندگی میں اچھے اخلاق اپناتا ہے، بلکہ دوسرے لوگوں کو بھی سکھاتا ہے۔ یہ بتاتا ہے کہ والدین اور اساتذہ کا کردار بچوں کی تربیت میں انتہائی اہم ہوتا ہے۔ وہ نہ صرف علم دیتے ہیں، بلکہ اچھے اخلاق، محبت، اور نرمی کا سبق بھی دیتے ہیں جو بچے اپنی زندگیوں میں اپنانے کی کوشش کرتے ہیں۔4. معافی اور محبت کی طاقتانس نے استاد سے کہا کہ وہ اپنے غصے اور پریشانی کو کلاس میں چھوڑ کر آئیں اور بچوں کے ساتھ نرمی سے پیش آئیں۔ اس کا پیغام یہ ہے کہ محبت اور معافی سے دلوں میں تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔ انس کا کہنا تھا کہ اگر استاد اپنے غصے کے باوجود اس بچے کو معاف کرتی ہیں، تو اس کا دل نرم ہوگا، اور اس کے ذریعے استاد کو بھی سکون ملے گا۔ یہ ایک بہت اہم سبق ہے کہ معافی دینے اور نرمی سے پیش آنا دوسروں کے دلوں میں محبت اور احترام پیدا کرتا ہے۔5. تربیت کا اثرکہانی کا آخر یہ بتاتا ہے کہ انس کی ماں کی تربیت نے اس کی شخصیت کو کیسے بنایا۔ انس آج ایک کامیاب شخص ہے اور اپنی زندگی میں اچھے اخلاق اور تربیت کا مظاہرہ کرتا ہے۔ اس کے نتیجے میں، اس کی ماں نے اس کی استاد کو ایک تحفہ دیا، یہ بتاتے ہوئے کہ انس کی تربیت میں اس کا حصہ ہے۔نتیجہ:یہ کہانی ہمیں بتاتی ہے کہ ہر فرد، چاہے وہ بچہ ہو یا بالغ، کی زندگی میں تربیت اور اخلاق کا اثر ہوتا ہے۔ جب ہم اپنے غصے اور مسائل کو دوسروں پر نہ نکالیں اور نرمی سے پیش آئیں، تو ہم نہ صرف دوسروں کی مدد کرتے ہیں بلکہ اپنی زندگیوں میں بھی سکون اور خوشی لے آتے ہیں۔ انس کی ماں کی تربیت اور انس کی اپنی معصومیت نے استاد کی زندگی کو بدل دیا، جو ایک بہت بڑی تبدیلی کی طرف اشارہ کرتی ہے۔یہ کہانی ایک یاددہانی ہے کہ ہمارے چھوٹے چھوٹے عمل اور اچھے اخلاق کتنی بڑی تبدیلی لا سکتے ہیںx
نکالوں گی۔
Comments