*وطنیت*
اس دور ميں مے اور ہے ، جام اور ہے جم اور
ساقی نے بنا کی روش لطف و ستم اور
مسلم نے بھی تعمير کيا اپنا حرم اور
تہذيب کے آزر نے ترشوائے صنم اور
ان تازہ خداؤں ميں بڑا سب سے وطن ہے
جو پيرہن اس کا ہے ، وہ مذہب کا کفن ہے
يہ بت کہ تراشيدہء تہذيب نوی ہے
غارت گر کاشانہء دين نبوی ہے
بازو ترا توحيد کی قوت سے قوی ہے
اسلام ترا ديس ہے ، تو مصطفوی ہے
نظارہ ديرينہ زمانے کو دکھا دے
اے مصطفوی خاک ميں اس بت کو ملا دے !
ہو قيد مقامی تو نتيجہ ہے تباہی
رہ بحر ميں آزاد وطن صورت ماہی
ہے ترک وطن سنت محبوب الہی
دے تو بھی نبوت کی صداقت پہ گواہی
گفتار سياست ميں وطن اور ہی کچھ ہے
ارشاد نبوت ميں وطن اور ہی کچھ ہے
اقوام جہاں ميں ہے رقابت تو اسی سے
تسخير ہے مقصود تجارت تو اسی سے
خالی ہے صداقت سے سياست تو اسی سے
کمزور کا گھر ہوتا ہے غارت تو اسی سے
اقوام ميں مخلوق خدا بٹتی ہے اس سے
قوميت اسلام کے جڑ کٹتی ہے اس سے
علامہ اقبال کی نظم وطنیت ان کے فلسفۂ ملت اور ان کے تصورِ اسلام کے تناظر میں لکھی گئی ایک گہری تخلیق ہے، جو مسلمانوں کو ان کی اصل شناخت اور دینی وحدت کی طرف رجوع کرنے کی دعوت دیتی ہے۔ اس نظم کی وضاحت درج ذیل نکات میں پیش کی جا سکتی ہے:
1. دورِ جدید کے تضادات
اقبال نظم کے آغاز میں بیان کرتے ہیں کہ موجودہ دور میں تہذیب اور فکر کے پیمانے بدل چکے ہیں:
مے (شراب) اور جام تو موجود ہیں لیکن ان کی حقیقت بدل گئی ہے۔
مسلمان بھی اپنی قوم کے لیے ایک نیا قبلہ (حرم) تعمیر کر چکے ہیں۔
تہذیب کے "آزر" (بت تراشنے والے) نئے اصنام (بت) بنا رہے ہیں، اور ان میں سب سے بڑا بت وطنیت ہے۔
2. وطنیت کا تصور اور اس کا نقصان
اقبال وطن پرستی کو ایک "نیا خدا" قرار دیتے ہیں، جو دین اسلام کے پیغام کے منافی ہے:
وطنیت کو مذہب کی جگہ دی جا رہی ہے، اور یہ مسلمانوں کی وحدت کو پارہ پارہ کر رہی ہے۔
اقبال کے نزدیک یہ تصور دینِ نبوی ﷺ کے اصولوں کو تباہ کر رہا ہے اور مسلمانوں کو ان کی اصل تعلیمات سے دور کر رہا ہے۔
3. اسلام کی عالمگیریت
اقبال مسلمانوں کو یاد دلاتے ہیں کہ:
مسلمان کا بازو توحید کی قوت سے طاقتور ہوتا ہے۔
ان کا اصل وطن اسلام ہے، نہ کہ کوئی جغرافیائی سرحد۔
وہ مصطفوی (نبی اکرم ﷺ کے پیروکار) ہیں اور ان کا مقصد اسلام کی آفاقی وحدت کو دنیا پر ظاہر کرنا ہے۔
4. قید مقامی کا خطرہ
اقبال وطنیت کو "قیدِ مقامی" (مقامی حدود میں بند ہونا) قرار دیتے ہیں، جس کا انجام تباہی ہے:
وہ مثال دیتے ہیں کہ مچھلی جب سمندر میں آزاد رہتی ہے تو زندہ رہتی ہے، لیکن اگر اسے محدود کیا جائے تو مر جاتی ہے۔
اسی طرح مسلمان اگر صرف وطن پرستی تک محدود ہو جائیں تو ان کا اتحاد اور قوت ختم ہو جاتی ہے۔
5. نبوی تعلیمات اور سیاست
اقبال سیاست میں وطنیت کے تصور کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں:
وہ کہتے ہیں کہ سیاست میں وطن پرستی قوموں کے درمیان رقابت، جنگ اور کمزور قوموں کے استحصال کا سبب بنتی ہے۔
نبوت کی تعلیمات انسانیت کی وحدت، عدل اور مساوات پر مبنی ہیں، جو وطنیت کے تنگ دائرے سے کہیں بلند ہیں۔
6. وطنیت کا دینِ اسلام پر اثر
اقبال واضح کرتے ہیں کہ:
وطنیت کا تصور انسانیت کو تقسیم کرتا ہے اور اسلام کی بنیاد پر بننے والی وحدت کو ختم کر دیتا ہے۔
یہ قوم پرستی اسلام کی جڑیں کاٹ دیتی ہے، کیونکہ اسلام کا پیغام رنگ، نسل اور قومیت سے ماورا ہے۔
اقبال کی اپیل
اقبال آخر میں ایک دعا اور اپیل کرتے ہیں کہ:
مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ دینِ نبوی ﷺ کے پیغام کو اپنائیں اور اس نئے "بت" (وطنیت) کو خاک میں ملا دیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ترکِ وطن (ہجرت) محبوبِ الٰہی ﷺ کی سنت ہے، جو اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ مسلمان کسی ایک سرزمین تک محدود نہیں بلکہ ان کا مقصد دینِ اسلام کو پوری دنیا میں پھیلانا ہے۔
نتیجہ
اقبال کی یہ نظم مسلمانوں کو یاد دلاتی ہے کہ ان کی اصل طاقت اسلام کے آفاقی پیغام میں ہے، نہ کہ کسی جغرافیائی یا قومی سرحد میں۔ وہ مسلمانوں کو ان کی حقیقی پہچان یعنی توحید اور مصطفوی تعلیمات کی طرف واپس بلاتے ہیں۔ ان کے نزدیک، وط
ن پرستی ایک محدود اور خطرناک تصور ہے جو امتِ مسلمہ کو تقسیم کر رہا ہے۔
x
Comments