*یا اللہ تیری یہ مخلوق پیاری بھی ہے اور مفید بھی ۔ ۔ ۔ مگر اسکے نخرے ۔ ۔ ۔تیری پناہ بس*
مجھے پراٹھے کھانا پسند ہے۔ مگر پراٹھوں سے ہاتھ کو لگنے والا گھی مشکل سے برداشت ہوتا ہے۔ تو کبھی کبھی بیگم جب اچھے موڈ میں ہو تو نوالے بنا بنا کر مجھے دیتی ہے۔ اور میں مزے سے موبائل استعمال کرتے ہوئے پراٹھا کھاتا ہوں اور اپنے سسرال کی تربیت کو دعا دیتا ہوں کہ فیمنزم کے اس پرآشوب دور میں اتنی اچھی بیوی مجھے نصیب ہوئی۔ ۔ ۔ ورنہ وہ کہہ سکتی تھی اپنا پراٹھا اپنا منہ اور اپنے نوالے۔
خیر، آج اتفاق سے بیگم کی طبعیت ناساز تھی تو میڈ کھانا ٹرے میں رکھ کر مجھے بیڈ پر ہی دے گئی۔ ۔ بیگم پاس ہی لیٹی تھی، مگر کھانے کے لیے نہیں اٹھی تو میرا دل بھر آیا کہ مجھے اتنے پیار سے پراٹھے کھلانے والی آج طبعیت کی خرابی سے خود نہیں کھانا چاہتی تو کیا ہوا ۔ ۔ میں کھلا دیتا ہوں۔ ۔ ۔
آلو۔میتھی کا سالن تھا، ساتھ پودینہ ہری مرچ کا رائتہ اور گرما گرم چپاتیاں۔۔ سلاد میں کٹے ہوئے کھیرے کے ٹکڑے اور گاجر۔ ۔ ۔
میں نے احتیاط سے چھوٹا نوالہ بنایا، میتھی سے اور رائتے سے بھرا اور بیگم کی طرف بڑھا دیا۔ ۔ بیگم نے زرا حیرانی سے میری جانب دیکھا اور کھانے کے لیے منہ کھول دیا ۔ ۔ جیسے چڑیا کے بوٹ دانہ کھاتے ہیں۔ ۔ اور آہستگی سے چبانے لگی۔ ۔ ۔ میں نے بہت خوشی محسوس کی ۔ ۔ ۔ واقعی یہ تو بڑا رومینٹک سا کام ہے ۔ ۔ اور بیگم بھی خوش ہو رہی ہے۔ ۔ میں سوچ رہا تھا، ۔ ۔ ویسے بھی اسلام میں بھی تو بیوی کو ۔ ۔ ۔
میں نے سوچتے سوچتے دوسرے نوالے کو بنانے کے لیے روٹی توڑی تو بیگم نے چباتے چباتے اشارہ کیا کہ وہ کچھ کہنا چاہتی ہے۔ ۔ میں کسی محبت بھرے جملے کے انتظار میں رک گیا۔ ۔ بیگم نے لقمہ نگلا اور زرا سا آگے جھک کر آہستگی سے کہا، ۔ ۔ آلو نہیں تھا اس میں ۔ ۔
اچھاااا، ۔ ۔ مجھ سے غلطی ہو گئی تھی ۔ ۔ میں چونکہ میتھی زیادہ پسند کرتا ہوں، اکثر لوگ میتھی کو اسکی کڑواہٹ کی وجہ سے ناپسند کرتے ہیں تو وہ آلو کے ساتھ مکس کرتے ہیں اور میتھی کم رکھتے ہیں ۔ ۔ ۔ سمجھ گیا ، میں نے دوسرے نوالے میں آلو زیادہ لیا، زرا کم میتھی، اور رائتے میں ڈبو کر بیگم کے حضور پیش کر دیا۔ ۔ ۔ بیگم خوشی سے دوسرا نوالہ چبانے لگی اور میں اپنے لیے روٹی توڑنے لگا۔ ۔
اپنا نوالہ کھا کر میں نے بیگم کے لیے تیسرا نوالہ بنانا چاہا تو بیگم نے پھر منہ پر ہاتھ رکھتے ہوئے مجھے اشارہ کیا ۔ ۔ میں سمجھ گیا کہ مزید ہدایات فیکس ہونے والی ہیں۔ ۔ خیر بیگم نے دوسرا نوالہ ختم کر کے بتایا کہ تم نے رائتہ زیادہ لگا دیا تھا، اتنا رائتہ نہیں لگاتے۔ ۔
اوہ ہو، اب سمجھ میں آیا کہ مسئلہ کدھر تھا۔ ۔ ۔ اس بار میں نے سنیارے کی سی احتیاط کے ساتھ رتی ماشہ تول کر نوالے میں پہلے آلو، پھر میتھی، اور پھر رائتے کی مناسب مقدار شامل کی اور بیگم کی جانب بڑھا دیا۔ ۔ اور خود اپنے لیے بھی نوالہ بنانے لگا۔ اس بار مجھے اپنا نوالہ بناتے وقت یک گونہ آزادی محسوس ہو رہی تھئ، میں نے مزے سے لاپرواہ انداز میں نوالہ بھرا جتنی میتھی، جتنا آلو آ گیا سو آ گیا، رائتے کی ڈبکی پر بھی میں نے ہاتھ کو کھینچا نہیں۔ ۔ تب سمجھ میں آیا کہ ہم مردوں کا پیٹ کیوں بڑھ جاتا ہے، ٹھونستے جو انے وا ہیں۔ ۔ ۔
چوتھے نوالے کے لیے میں نے بیگم کی طرف دیکھا جو اٹھنے کی کوشش کر رہی تھی۔ ۔ کیا ہوا، میں نے پوچھا ۔ ۔ ۔ کچھ نہیں میں ہمت کر کے خود ہی کھا لیتی ہوں، بیگم نے مجھے تسلی دی ۔ ۔
مگر مجھ پر تو بیگم کی جوابی خدمت کا بھوت سوار تھا، میں نے اصرار کیا، نہیں نہیں میں کھلاتا ہوں ناں۔ ۔ نہیں، بیگم نے سختی سے انکار کر دیا ۔ ۔ میں خود کھاتی ہوں۔ ۔ مگر کیوں ۔ ۔ میں نے وہ سوال پوچھا جو نہیں پوچھنا چاہیے تھا۔ ۔ ۔
بیگم نے لحاظ ویہاظ بالائے طاق رکھا اور کہنے لگی، تم سے تو ایک نوالہ ٹھیک سے نہیں بنتا، کبھی میتھی زیادہ ، کبھی رائتہ ، اور کبھی تینوں چیزیں ٹھیک ہوں تو اتنی دیر لگاتے ہو کہ روٹی ٹھنڈی ہو جائے، کھلانے کا انداز بھی ٹھونسنے جیسا ہے، لگتا ہے نوالہ اب گرا کہ تب گرا ۔ ۔ ۔ پھر تمہاری اپنی رفتار عجیب ہے کھانے کی۔ ۔ ۔ ایک نوالہ کھا کر مجھے دو تو ابھی پہلا ختم نہیں ہوتا، اور دو نوالے ختم کرو تو میں انتظار میں ہوتی ہوں۔ ۔ ۔ کہ کب اگلا نوالہ ملیگا۔ ۔ ۔ اور سلاد بھی تو دیتے ہیں ساتھ ۔ ۔ ۔ تو بس رہنے دو یہ چونچلے ۔ ۔ ۔
میں خاموشی سے اپنا کھانا کھانے لگا۔ ۔ ۔ سوچ یہ رہا تھا یااللہ تیری یہ مخلوق پیاری بھی ہے اور مفید بھی ۔ ۔ ۔ مگر اسکے نخرے ۔ ۔ ۔تیری پناہ بس۔
آپ کی تحریر ایک عام گھریلو لمحے کو نہایت مزاحیہ اور دلچسپ انداز میں بیان کرتی ہے، جو کہ قاری کو محظوظ بھی کرتی ہے اور سوچنے پر بھی مجبور کر دیتی ہے۔ میں اس کا تجزیہ تین پہلوؤں سے کروں گا: مزاح، ازدواجی حقیقت، اور تحریری مہارت۔
1. مزاح کا پہلو:
آپ کی تحریر میں سچویشنل کامیڈی (Situational Comedy) کا بہترین استعمال کیا گیا ہے۔ قاری پہلے تو یہ سوچتا ہے کہ ایک رومانی لمحہ پیش کیا جا رہا ہے، مگر جیسے جیسے کہانی آگے بڑھتی ہے، وہی رومانس عملی مسائل اور "فیڈ بیک" میں بدل جاتا ہے۔ خاص طور پر "آلو نہیں تھا اس میں" والا لمحہ بہت برجستہ تھا، کیونکہ یہ وہ عام گھریلو مکالمہ ہے جو سب کو جانا پہچانا محسوس ہوگا۔
2. ازدواجی حقیقت:
آپ نے شادی شدہ زندگی کی ایک بنیادی حقیقت بیان کی ہے کہ اکثر وہی کام جو بیوی محبت سے کرے، اگر شوہر وہی کام کرنے کی کوشش کرے تو "معیار" پر پورا نہیں اترتا۔ اس میں دو دلچسپ پہلو ہیں:
شوہر کی نیت اچھی تھی، مگر مہارت کمزور نکلی۔
بیوی نے محبت اور لحاظ میں نرمی رکھی، مگر آخرکار سچ بول ہی دیا۔
یہ صورتحال تقریباً ہر شادی شدہ جوڑے نے کبھی نہ کبھی ضرور گزاری ہوگی، اس لیے قاری خود کو اس میں دیکھ سکتا ہے۔
3. تحریری مہارت:
آپ کی زبان سادہ مگر پُراثر ہے، اور جملوں میں برجستگی ہے۔
مختصر مگر جاندار جملے کہانی کی روانی برقرار رکھتے ہیں۔
کرداروں کے مکالمے فطری ہیں، جیسے "تم سے تو ایک نوالہ ٹھیک سے نہیں بنتا"—یہ جملہ پڑھ کر ہر کسی کو کسی نہ کسی کا چہرہ ضرور یاد آیا ہوگا!
نتیجہ:
یہ تحریر گھریلو زندگی کے حقیقی، رومانوی اور مزاحیہ پہلوؤں کو ایک ساتھ جوڑتی ہے۔ یہی وہ چیز ہے جو قاری کو مسکرانے اور اپنی زندگی سے اس کا موازنہ کرنے پر مجبور کر دیتی ہے۔
اگر آپ مزید ایسی تحریریں لکھتے ہیں، تو ضرور شیئر کریں! آپ کا ا
نداز بہت منفرد اور پُرلطف ہے۔
Comments