Skip to main content

Posts

قربانی کی کھالوں سے کیا کیا بنتا ہے

  <script async src="https://pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js?client=ca-pub-3414194968476074"      crossorigin="anonymous"></script> <!-- 1d --> <ins class="adsbygoogle"      style="display:block"      data-ad-client="ca-pub-3414194968476074"      data-ad-slot="4907265919"      data-ad-format="auto"      data-full-width-responsive="true"></ins> <script>      (adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({}); </script> جانوروں کی کھالوں کی گرتی ھوٸی قیمتوں اور چمڑے کے کاروبار کے خسارے پر میں نے عیدالاضحی سے ایک ماہ پہلے یہ تحقیق کیا تھا ۔  ۔اور جہاں تک یہ بات ھے کہ دینی مدارس کی فنڈنگ کی وجہ سے ریٹ کم ھے ۔یا اسٹبلشمنٹ کی مداخلت کی وجہ سے۔     تو دوران تحقیق مجھے اسکے کچھ بھی آثار نہ ملے ۔ اور درج ذیل وجوھات کو مد نظر رکھ آپ خود اندازا لگاۓ کہ کون سے وجوھات قابل قبول ھے نرخ گرنے میں ۔ نمبر ا...

نصیحت_و_حکمت

highrevenuegate.com/f7/25/57/f72557d0987fb7503114f44a603051ce.js   #نصیحت_و_حکمت بہلول نے حضرت جنيد بغدادی سےپوچھا شیخ صاحب کھانے کے آداب جانتے ہیں؟  کہنے لگے، بسم اللہ کہنا، اپنے سامنے سے کھانا، لقمہ چھوٹا لینا، سیدھے ہاتھ سے کھانا، خوب چبا کر کھانا، دوسرے کے لقمہ پر نظر نہ کرنا، اللہ کا ذکر کرنا، الحمدللہ کہنا، اول و آخر ہاتھ دھونا۔  بہلول نے کہا، لوگوں کے مرشد ہو اور کھانے کے آداب نہیں جانتے اپنے دامن کو جھاڑا اور وہا ں سے اٹھ کر آگے چل دیئے۔  شیخ صاحب بھی پیچھے چل دیئے، مریدوں نے اصرار کیا، سرکار وہ دیوانہ ہے لیکن شیخ صاحب پھر وہاں پہنچے پھر سلام کیا۔  بہلول نے سلام کا جواب دیا اور پھر پوچھا کون ہو؟ کہا جنید بغدادی جو کھانے کے آداب نہیں جانتا۔ بہلول نے پوچھا اچھا بولنے کے آداب تو جانتے ہوں گے۔  جی الحمدللہ، متکلم مخاطب کے مطابق بولے، بےموقعہ، بے محل اور بےحساب نہ بولے، ظاہر و باطن کا خیال رکھے۔ بہلول نے کہا کھانا تو کھانا، آپ بولنے کے آداب بھی نہیں جانتے، بہلول نے پھر دامن جھاڑا اورتھوڑا سا اور آگے چل کر بیٹھ گئے۔ شیخ صاحب پھر وہاں جا پہنچے سلام کیا۔...

پشاور سے کوہاٹ جاتے ہوئے

  ۔کوہاٹ سے پشاور جاتے ھوئے کوہاٹ ٹنل کے قریب سڑک کے کنارے نصب ایک مجسمہ ہے جس کی اپنی ھی ایک تاریخ ھے ۔  نئی نسل کو اس بارے میں کم ہی معلوم ھے  یہ مجسمہ ایک تاریخی شخصیت عجب خان آفریدی کا ہے جنہوں نے انگریز سامراج کی مخالفت میں 1923 میں درہ آدم خیل میں لڑائی لڑی تھی اور یہ لڑائی اس وقت شدت اختیار کر گئی تھی. جب غازی عجب خان نے انگریز کی کوہاٹ فوجی چهاؤنی اور دیگر مراکز کو حملوں کا نشانہ بنانا شروع کیا۔ انہوں نے فوجی چهاؤنی سے بھاری اسلحہ نکالنے کے ساتھ ساتھ بہت سے انگریز فوجیوں کو ہلاک بھی کیا، جس پر انگریز انٹیلی جنس اداروں اور عجب خان آفریدی میں ٹھن گئی۔ ایک دن انگریز فوج نے ان کے گھر پر ہلہ بول دیا اور عجب خان آفریدی کی والدہ سے بدتمیزی کی جس کے بعد ماں نے عجب خان آفریدی کو انگریز سے بدلہ لینے کا حکم دیا کہ جب تک تم انگریز سے میری بےعزتی کا انتقام نہ لے لو مجھے اپنی شکل مت دکھانا اور نہ ہی تب تک گھر آنا۔ یہاں تک کہ اسے اپنا دودھ تک نہ بخشنے کی بھی دھمکی دی۔ اس کے بعد عجب خان آفریدی نے دل میں مصمم ارادہ کیا کہ وہ انگریز قوم سے ایسا بدلہ لیں گے کہ وہ تاعمر یاد رکھیں گے۔...
کتابوں کے حوالے سے محاورے 1 تحفة الفقھاء کے بارے میں علماء کرام نے فرمایا! شرح تحفته فزوّجه ابنته "شاگرد نے استاذ کی کتاب کی شرح کی تو استاذ نے شاگرد سے اپنی بیٹی کی شادی کر دی" ۔ 2 امام نووی رحمہ اللہ کی کتاب "اذکار" کے بارے کہا گیا! بع الدار واشتر الأذكار "گھر بیچ کر کتاب الاذکار خرید لو" ۔ 3"زاد المستقنع" کے بارے میں علماء کرام نے فرمایا ! من حفظ الزاد أفتى بين العباد "جس نے کتاب الزاد یاد کر لی وہ لوگوں کو فتوی دے گا" ۔ 4 حافظ الدنیا ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ کی کتاب "فتح الباری" کے بارے مقولہ ہے! لا هجرة بعد الفتح "فتح کے بعد ھجرت نہیں ہوتی" ۔ 5 امام نووی رحمہ اللہ کی کتاب "المنھاج" کے بارے کہا گیا ! من حفظ المنهاج هاج "جس نے منھاج حفظ کی وہ سخت ہوگیا" ۔ 6 امام نووی رحمہ اللہ کی کتاب "المجموع" کے بارے کہا گیا ! اعطش وجوع و اشتر المجموع "بھوکے رہو پیاسے رہو مگر المجموع ضرور خریدو" ۔ 7 ابن ابی زید قیروانی کے الرسالہ کے بارے کہا گیا! الِّذی يَحْفَظْ الرَّسَالَه مَاتَغلبه مْسَ...

A comparison between two lives

  تصویر میں دائیں جانب موجود شخص امریکہ سے تعلق رکھنے والا جوزف اسٹس ہے( Joseph Estes)اپنے کیریئرکا آغاز ایک ایسے تاجر سے کیا جو انتہا درجے کا متعصب عیسائی تھا مسلمانوں پرطنزوتضحیک اس کا وطیرہ تھا۔( اللہ کی پناہ ۔ کعبۃ اللہ کے بارے میں ) از راہ طنز اس کا کہنا تھا کہ : مسلمان صحراء میں پڑے ایک سیاہ صندوق کی عبادت کرتے ہیں ۔ تصویر میں بائیں جانب شخص بلاد حرمین سے تعلق رکھنے والا عبد اللہ القصیمی ہے۔ آغاز میں کمال درجے کا داعی اورمبلغ تھا یہاں تک کہ اسے ابن تیمیہ دوٸم کا لقب دیا گیا ۔ اس کی مشہور زمانہ کتاب « الصراع بين الإسلام والوطنية » اسلام اور نیشنلزم کا ٹکراؤ،، اہل علم میں اس کتاب کو بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی ۔ کتاب کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ اس وقت حرم مکی کے امام نے اس کے بارے میں پورا قصیدہ پڑھا تھا ۔ مشہور عالم دین صلاح منجد نے ذکر فرمایا ہے کہ بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ : قصیمی نے اس کتاب کو لکھا گویا کہ جنت کا مہر ادا کیا ۔ سن انیس سو اسی میں اس وقت قصیمی اچانک ایک سو اسی درجے پھر گیا جب بیروت میں ایک عیسائی لڑکی کے ساتھ اسے عشق ہوگیا ، اس کے بعد اس نے بے دین گمراہ افکار...

کیا زمین میں سوارخ کر کے ایک طرف سے چھلانگ لگانے پر ہم دوسری طرف پہنچ

 کیا زمین میں سوارخ کر کے ایک طرف سے چھلانگ لگانے پر ہم دوسری طرف پہنچ جائیں گے؟ ہاں جی پہنچ جائیں گے۔ لیکن سوارخ کیسے بنے گا؟خط اِستوا پر زمین کا قطر (Diameter) 12754 کلومیٹر ہے۔ اِس میں سے ہم صرف 12 کلومیٹر زمین ہی کھود پائیں ہیں۔ کیونکہ جیسے جیسے ہم نیچے جاتے ہیں زمین کا درجہ بڑھتا جاتا ہے اور زمین کے مرکز میں یہ °5200 سیلسیس تک ہوتا ہے۔ لیکن چونکہ یہ ممکن نہیں آپ پھر بھی کسی طرح اِس درجہ حرارت پر قابو پا لیتے تو آگے کیا ہو گا؟ جیسے جیسے آپ زمین میں نیچے جاتے ہیں زمین کی کشش ثقل کم ہوتی جاتی اور عین مرکز میں یہ  صفر ہو جاتی ہے۔ ایسا کیوں؟ زمین کے مرکز میں کسی جسم پر زمین کے ہر طرف موجود ماس جسم کو ہر طرف سے ایک جتنی قوت سے اپنی طرف کھینچتا ہے اور نتیجے میں آپ درمیان میں رہتے ہیں۔ یہ نیوٹن کا پہلا قانون ہے۔ اب ہم سوارخ میں چھلانگ لگانے کے لیے تیار ہیں۔ آپ جیسے ہی چھلانگ لگائیں آپ کی رفتار بڑھتی جائے گی اور کشش ثقل کی قوت کم ہوتی جائے گی۔ زمین کے مرکز میں یہ رفتار زیادہ سے زیادہ اور عمل کرنے والی کشش ثقل صفر ہو جائے گی۔ یہ اب چونکہ جسم حرکت کر رہا تو جسم کا انرشیا چاہے گا آپ ...

جامعہ دارالعلوم رشید کی لائبریری

 میں نے کچھ وقت جامعۃ الرشید میں گزارا ہے ۔  اُس وقت وہاں پر لائبریری کا ایک بہت ہی مضبوط نظام تھا ۔ بالخصوص ہر نیا رسالہ لائبریری میں آیا کرتا تھا ۔ ضرب مومن اور دیگر رسائل کے مجموعہ بھی وہاں پر رکھے ہوئے ہوتے تھے ۔  سارا دن طلبائے کرام کو ایک لمحہ کی بھی فرصت نہیں ہوتی تھی ۔ البتہ رات کو ساڑھے گیارہ بجے کے بعد لائبریری جانے کا وقت ملتا تھا ۔ اُس وقت اکثر بچے تپائی پر سر مار رہے ہوتے تھے اور ساتھ ہی پڑھ بھی رہے ہوتے تھے ۔ یہ اُنکا ذوق تھا کہ دن بھر کی تھکن کے بعد وہ اپنی مرضی سے لائبریری میں آیا کرتے تھے ۔  البتہ ایک اور شوق دلانے والی بات یہ بھی یاد ہے کہ اکثر ہماری درسگاہ میں استاذ محترم کوئی سوال ذمہ لگایا کرتے تھے کہ سبق سے متعلق یہ سوال ہے اِسکو حل کرکے لانا ۔ لائق اور ذہین لڑکے بھی اسکو حل نہ کرپاتے ۔ تو تین یا چار دن کے بعد استاذ محترم فرماتے کہ لائبریری کی فلاں کتاب میں فلاں صفحہ نمبر پر اسکا حل موجود ہے ۔ اس طرح کتاب کا تعارف بھی ہوجاتا اور رات کو علم کے پیاسے لائبریری پہنچ جایا کرتے تھے ۔  مجھے نحو کی کتاب "المغنی" کا تعارف اسی طرح ہوا تھا ۔ بلکہ ایک ...