جب زکوئی سلطان صلاح الدین ایوبی کے خیمے میں پنہچی
تم پرندوں سے دل بہلایا کروسپاہ گری اس انسان کے لیے ایک خطر ناک کھیل ھے جو عورت اور شراب کا دلدادہ ھوں یہ تاریخ الفاظ سلطان صلاح الدین نے اپنے چچا زاد بھائی حلیفہ الصالح کے ایک امیر سیف الدین کو لکھے تھے، ان دونوں نے صلیبوں کو در پردہ مدد ز رو جوھرات کا لالچ دیا اور صلاح الدین ایوبی کو شکست دینے کی سازش کی ، امیر سیف الدین اپنا مال و متاع چھوڑ کر بھاگا، اسکے زاتی حیمہ گاہ سے رنگ برنگی پرندے، حسین اور جوان رقضائیں اور گانے والیاں ساز اور سازندے شراب کے مٹکے برامدھوے، سلطان نے پرندوں گانے والیوں اور سازندوں کو آزاد کر دیا اور امیر سیف الدین کو اس مضمون کا حط لکھا دونوں نے کفار کی پشت پناھی کر کہ ان کے ھاتھوں میرا نام و نشان مٹانے کی ناپاک کوشیش کی مگر یہ نہ سوچا کہ تمھاری یہ ناپاک کوشیش عالم اسلام کا بھی نام و نشان مٹا سکتی تھی۔ تم اگر مجھ سے حسد کرتے ھوں تو مجھے قتل کر دیا ھو تا تم مجھ پر دو قاتلانہ حملے کر چکے ھو ۔ دونوں نا کام ھوے اب ایک اور کوشیش کر کہ دیکھ لو، ھو سکتا ھے کامیاب ھو جاو۔ اگر تم مجھے یقین دلا دو کہ میرا سر میرے تن سے جدا ھو جائے تو اسلام اور زیادہ سر بلند رھے گا تو رب کعبہ کی قسم میں اپنا سر تمھارے تلوار سے کٹوانگا اور تمھارے قدموں میں رکھنے کی وصیت کرونگا میں صرف تمھیں یہ بتادینا چاھتا ھوں کہ کوئی غیر مسلم مسلمان کا دوست تھی ھو سکتا ، تاریخ تمھارے سامنے ھے اپنا ماضی دیکھو، شاہ فرینک اور ریمانڈ جیسے اسلام دشمن تمھارے دوست اسلیئے ھے کہ تم نے انھیں مسلمانوں کے خلاف جنگ میں اترنے کی شہ اور مدد دی ھے ۔ اگر وہ کامیاب ھو جاتے تو انکا اگلا شکار تم ھوتے اور اس کے بعد ان کا یہ خواب بھی پورا
ھو جا تھا کہ اسلام صفحہ ہستی سے مٹ جاے ۔ تم جنگجو قوم کے فردھوں فن سپاہ گری تمھارا قومی پیشہ حرم هر مسلمان اللہ کا سپاھی ھے مگر ایمان اور کردار بنیادی شرط ھے تم پرندوں سے دل بہلایا کرو سپاہ گری اس انسان کے لیے ایک خطر ناک کھیلھے جو عورت اور شراب کا دلدادہ ھوں میں تم سے درخواست کرتا ھوں کہ میرے ساتھ تعاون کرو اور میرے ساتھ جہاد میں شریک ھو جاؤ، اگر یہ بھی کر سکو تو میری مخالفت سے باز آجاو، میں تمھیں کو ی سزا بھی دونگا۔۔۔۔ اللہ
تمھارے گناہ معاف کریں ۔۔۔۔۔) صلاح الدین ایوبی ("
ایک یورپی مورح لین پول لکھتا ھے
صلاح الدین کے ھاتھوں جو مال غنیمت لگا اسکا کوئی حساب بھی تھا، جنگی قیدی بھی بے اندازہ تھے ،سلطان نے تما تر مال غنیمت تین حصوں میں تقسیم کیا، ایک حصہ جنگیں قیدیوں میں تقسیم کر کہ انکو رہا کر دیا، دوسرا حصہ اپنے سپاھیوں اور غرباء میں تقسیم کیا، اور تیسرا حصہ مدرسہ نظام المک کو دے دیا، اس نے اسی مدر سے سے تعلیم حاصل کی تھی۔ نہ خود کچھ رکھا اور نہ اپنے کسی جرنیل کو کچھ دیا، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جنگی قیدی جن میں بھت سے مسلمان تھے اور باقی غیر مسلم، رھا ھو کر سلطان کے کیمپ میں جمع ھو گیے اور سلطان کی اطاعت قبول کر کہ اپنی خدمات فوج کے لیے پیش کر دی ایوبی کی کشادہ ظرفی اور عظمت دور دور تک مشہور ھو گناس سے پہلے حسب بن صباح کے پر اسرار فرقے فدائی جنھیں یورپین مورحین نے قاتلوں کا گروہ لکھا ھے صلاح الدین ایوبی پر دوبارہ قاتلانہ حملے کر چکے تھے لیکن اللہ نے اس اعظیم مرد مجاھد سے بھت کام لینا تھا دونوں بار ایک معجزہ ھوا جس میں یہ مرد مجاهد بال بال بچ گیا سلطان پر تیسرا قاتلانہ حملہ اس وقت ھوا جب وہ اپنے مسلمان بھائیوں اور صلیبوں کی سازش کی چھٹان کو شمشیر سے ریزہ ریزہ کر چکا تھا۔ امیر سیف الدین میدان جنگ سے بھاگ گیا تھا مگر وہ سلطان کے خلاف بعض اور کینہ سے باز بھی آیا۔ اس نے حسن بن صباح کے قاتل فرقے
کی مدد حاصل کی۔
حسن بن صباح کا فرقہ اسلام کی آستین میں سانپ کی طرح پل رھا تھا۔ اس کا تفصیلی تعارف بھت ھی طویل ھے۔ مختصر یہ کہ جس طرح زمین سورج سے دور ھو کر گناھوں کا گہوارہ بن گئی ھے، اسی طرح ایک حسن بن صباح نامی ایک شخص نے اسلام سے الگ ھو کر نبیوں اور پیغمبروں والی عظمت حاصل کرنے کا منصوبہ بنایا وہ اپنے آپکو مسلمان بھی کہلاتا رھا اور ایسا گروہ بنالیا جو طلسماتی طریقوں سے لوگوں کا اپنا پیروکار بناتا ، اس
مقصد کے لیے اس گروہ نے نہایت حسین لڑکیاں نشہ آور جڑی بوٹیاں ھیپناٹزم اور چرب زبانی جیسے طریقے اپناے، بہشت بنائی جس میں جا کر پتھر بھی موم ھو جاتے تھے اپنے مخالفین کو قتل کرانے کے لیے ایک گروہتیار کیا قتل کے طریقے حفیہ اور پر اسرار ھوتے تھے، اس فرقے کے افراد اس قدر چلاک زمین اور نڈ رتھے کہ بھیس بدل کر بڑے بڑے جرنیلوں کے باڈی گارڈ بن جاتے تھے اور جب کوی پر اسرار طریقے سے قتل ھو جاتا تو قاتلوں کو سراغ ھی نھی مل پاتا، کچھ عرصہ بعد یہ فرقہ " قاتلوں کا گروہ کے نام سے مشہور ہوا یہ لوگ سیاسی قتل کے ماہر تھے زھر بھی استعمال کیا کرتے تھے، جو حسین لڑکیوں کے ھاتھوں شراب میں دیا جاتا تھا بھت
مدت تک یہ فرقے اسی مقصد کے لیے استعمال ھوتا رھا۔۔ اسکے پیروکار فدائی" کہلاتے تھے۔ سلطان صلاح الدین ایوبی کو نہ تو لڑکیوں سے دھوکہ دیا جا سکتا تھا اور نہ بھی شراب سے ۔ وہ ان دونوں سے نفرت کرتا تھا ، سلطان کو اس طریقے سے قتل بھی کیا جا سکتا تھا۔ اس کو قتل کرنے کا یہی ایک طریقہ تھا کہ اس پر قاتلانہ حملہ کیا جائے، اسکے محافظوں کی موجودگی میں اس پر حملہ بھی کیا جا سکتا تھا، دو حملے نا کام ھو چکے تھے ۔ اب جبکہ سلطان کو یہ توقع تھی کہ اسکا چچازاد بھای الصالح اور امیر سیف الدین شکست کھا کر تو بہ کر چکے
ھونگے انھوں نے انتقام کی ایک اور زیر زمین کوشیش کی۔ صلاح الدین نے اس فتح کا جشن منانے کے بجاے حملے جاری رکھے اور تین قصبوں کو قبضے میں
لیا، ان میں غازہ کا مشہور قصبہ تھا، اسی قصبے کے گردونواح میں ایک روز سلطان صلاح الدین ایوبی ، امیر جاوالا سدی کے جیسے میں دو پہر کے وقت عنودگی کے عالم میں ستا رھے تھے، سلطان نے وہ پگڑی تھی اتاری تھی جو میدان جنگ میں سلطان کے سر کو صحرا کی گرمی اور دشمن کے تلوار سے بچا کر رکھتی تھی۔ جیسے کے باھر اسکے محافظوں کا دستہ موجود اور چوکس تھا ، باڈی گارڈ ز کے اس دستے کا کمانڈ رز راسی دیر کے لیے وھاں سے چلا گیا، ایک محافظ نے سلطان کے خیمے میں گرے ھوے پردوں میں سے جھانکا، اسلام کے عظمت کے پاسبان کی آنکھیں بند تھی اور پیٹھ کے بل لیٹا ھوا تھا ، اس محافظ نے باڈی گارڈز کی طرف دیکھا، ان میں سے تین چار باڈی گارڈز نے اسکی طرف دیکھا، محافظوں نے اپنی آنکھیں بند کرکہ کھولی ) ایک خاص اشارہ (
تین چار محافظ اٹھے اور دو تین باقی باڈی گارڈ زکو باتوں میں لگالیا، محافظ جیسے میں چلا گیا۔۔۔ اور حنجر کمر بند سے نکالا۔۔۔ دبے پاؤں چلا اور پھر چیتے کی طرح سوے ھوے سلطان صلاح الدین ایوبی پر جست
لگای مینجر والا ھاتھ اوپر اٹمیں یا سینے میں ۔۔ مگر ھوا یوں کہ خنجر سلطان کی پگڑی کے بالائی حصے میں اتر گیا، اور سر بال برابر جتنا دور رھا
اور پگڑی سر سے اتر گی
سلطان صلاح الدین بجلی کی تیزی سے اٹھا، اسے سمجھنے میں دیر بھی لگی کہ یہ سب کیا ھے ۔ اس پر اس سے پہلے دو ایسے حملے ھو چکے تھے۔ اس نے اس پر بھی اظہاربھی کیا کہ حملہ آور خود اسکی باڈی گارڈ کی وردیوں میں تھے، جسے اس نے خود اپنے باڈی گارڈز کے لیے منتخب کیا تھا، اس نے ایک سانس برابر بھی اپنا وقت ضایع ہ کیا۔ حملہ آور اپنا سنجر پگڑی سے کھینچ رھا تھا۔ ایوبی کا سر نگا تھا۔اس نے بھر پور طاقت سے ایک گھونسہ حملہ آور کی توڑی پر دیں مارا ھڈی ٹوٹنے کی آواز آی حملہ آور کا جبڑا ٹوٹ چکا تھا، وہ پیچھے کی طرف گرا اور اسکے منہ سے حبیبتناک آواز نکلی۔ اسکا حنجر ایوبی کی پگڑی میں رہ گیا تھا، ایوبی نے اپنا خنجر نکال لیا تھا، اتنے میں دو محافظ اندر آے ، ان کے ھاتھوں میں تلوار میں تھی ، سلطان صلاح الدین نے انھیں کہا کہ ان کو زندہ
پکڑو۔
لیکن یہ دونوں محافظ سلطان صلاح الدین پر ٹوٹ پڑے، سلطان صلاح الدین نے ایک حنجر سے دو تلواروں کا مقابلہ کیا۔ یہ مقابلہ ایک دو منٹ کا تھا۔ کیونکہ تمام باڈی گارڈ ز اندر داخل ھوے تھے، سلطان صلاح الدین یہ دیکھ کر حیران تھا کہ اسکے باڈی گارڈ ز دو حصوں میں تقسیم ھو کر ایک دوسرے کو لہولہان کر رھے تھے، اسے چونکہ معلوم ھی نہ تھا کہ اس میں اسکا دوست کون ھے اور دشمن سو وہ اس معرکہ میں شامل بھی تھی ھوا، کچھ دیر بعد باڈی گارڈ ز میں چند مارے گیے کچھ بھاگ گئے کچھ زیمی ھوے، تو انکشاف ھوا کہ یہ جو دستہ سلطان صلاح الدین کی حفاظت پر مامور تھا اس میں سات فدائی تھے جو سلطان صلاح الدین کو قتل کرنا چاھتے تھے، انھوں نے اس کام کے لیے صرف ایک فدائی کو اندر جیسے میں بیجھا تھا، اندر صورت حال بدل گی تو دوسرے بھی اندر چلے گیے ، اصل محافظ بھی اندر چلے گیے وہ صورت حال سمجھ گیے ، سو سلطان صلاح الدین بیچ گیا۔ سلطان صلاح الدین ن اپنے پہلے حملہ آور ھونے والے کی شہ رگ پر تلوار رکھ کر پوچھا، کہ وہ کون ھے اور اسکو کس نے بیجھا ھے۔ سچ کہنے پر سلطان نے اسکے ساتھ جان کسی کا وعدہ کیا۔ اس نے کہا کہ وہ " فدائی ھے اور اس میٹنکن ) جے بعض مورمین کے مشنگن بھی لکھا ھے ( نے بیجھا ہے میٹکن الصالح کے قلعے کا ایک گورنز
تھاھا۔
عین اسی وقت سلطان نے کروٹ بدلی ، یہ ھی بتایا جاسکتا کہ حملہ آو حنجر کہاں مارنا چاھتا تھا، دلاصل واقعات کی طرف آنے سے پہلے یہ ضروری معلوم ھوتا ھے کہ ان واقعات سے پہلے کے دور کو دیکھا جائے۔ سلطان صلاح الدین ایوبی کے نام عظمت اسلام کی عظمت اور اسکے کارناموں سے مسلم اور نان مسلم کون واقف بھی ؟ ملت اسلامیہ تو سلطان صلاح الدین ایوبی کو بھول ھی تھی سکتی۔ مسیحی دنیا بھی سلطان صلاح الدین ایوبی کو رہتی دنیا تک یاد رکھے گی۔ کیونکہ سلطان صلاح الدین ایوبی صلیبی جنگوں اور صلیبوں کے دور
حکومت میں ایک مسلمان شیر تھا۔ جس نے ہزاروں زخم دیے مسیحی برادری کو ۔
سولہذا یہ ضروری معلوم نھی ھو تا کہ سلطان صلاح الدین ایوبی کی شجرہ نسب کو تفصیل سے بیان کیا
جائے ۔ اسلام اور انسان پر ھم آپکو ایسے واقعات سنانے جا رھے ھیں جس کی وسعت کے لیے تاریخ کا دامن بھت ھی چھوٹا پڑ جاتا ھے، یہ تفصیلات وقائع نگاروں اور قلم کاروں کی ریکارڈ کی ھوئی ھے، کچھ سینہ بہ سینہ اگلی نسلوں تک پہنچی ، تاریخ نے صرف سلطان صلاح الدین ایوبی کے کارنامے محفوظ کیسے ھے کیونکہ تاریخ بہت کم پڑ جاتی ھے سلطان صلاح الدین ایوبی کی زندگی کے آگے، ان سازشوں کا زکر تاریخ نے بھت کم کیا ھے، جو اپنوں نے سلطان لاح الدین ایوبی کے خلاف کیسے اور اسکے شہرت تاریخی عظمت کو داغدار بنانے کے لیے
ایسی ایسی لڑکیاں بار بار استعمال کی، جن کا حسن طلسماتی تھا۔
تاریخ اسلام کا یہ حقیقی ڈارمہ ۲۳ مارچ ۱۱۶۹ کے روز سے شروع ھوتا ھے جب سلطان صلاح
الدین ایوبی کو مصر کا و اسرائے اور فوج کا کمانڈر انچید بنایا گیا۔ اسے اتنا بڑا ربتہ ایک تو اسلیے دیا گیا کہ وہ
حکمرانوں کے گھروں کا نو نہال تھا اور دوسرا اسلیئے کہ اوائل عمری میں بھی وہ فن حرب و ضرب کا ماھر ھو گیا تھا۔ سپاہ گری ورثے میں پائی تھی ، سلطان صلاح الدین ایوبی کے معنوں میں حکمرانی بادشاھی تھی قوم کی عظمت اور
فلاح و بہبود تھا، اسکا جب شعور بیدار ھوا تو پہلی حملش یہی محسوس کی وہ یہ تھی کہ مسلمان حکمرانوں میں نہ صرف یہ کہ
اتحاد تھی بلکہ وہ ایک دوسرے کی مدد کرنے سے بھی گریز کرتے تھے ، وہ عیاش ھو گئے تھے ، شراب اور عورت
نے جہاں انھیں انکی زندگی رنگین بنارہی تھی وہاں عالم اسلام اور اور اس اعظیم مذھب کا مستقبل تاریک ھو گیا
تھا،
ان امیروں حکمرانوں اور ریسوں کے حرم غیر مسلم لڑکیوں سے بھرے رھتے تھے، زیادہ تر لڑکیاںیہودی اور عیسائی تھی جن کو حاص تربیت دیں کہ ان حرموں میں داخل کیا گیا تھا، غیر معمولی حسن اور ادکاری میں کمال رکھنے والی یہ لڑکیاں مسلمان حکمرانوں اور سر براھوں کے
کردار اور قومی جذبے کو دیمک کی طرح چاٹ رھی تھی،
اسکا نتیجہ یہ تھا کہ مصلیبی جن میں فرینک ) فرنگی ( خاص طور پر قابل ذکر ھے مسلمانوں کی سلطنتوں کو ٹکڑے کرتے ھڑپ کرتے جا رھے تھے، اور بعض مسلمان تو شاہ فرینک کو سالانہ ٹیکس اور جزیہ بھی دیتے تھے جس کی مثال غنڈہ ٹیکس کی سی تھی صلیبی اپنی جنگی قوت کے رعب اور چھوٹے چھوٹے حملوں سے مسلمان حکمرانوں کو ڈراتے رھتے کچھ علاقوں پر قبضہ کرتے ٹیکس اور تاوان وصول کرتے ۔ ۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ آھستہ آھستہ دنیائے اسلام کو ھڑپ لیا جاے ۔ مسلمان رعایا کا خون چوس کر ٹیکس دیتے رھتے تھے ان کا مقصد یہ تھا کہ بس انکی عیش و عشرت میں مل بھی آجانا چاہیے۔
فرقپ پرستی کے پیچ بو دیئے گئے تھے، ان میں سب سے زیادہ خطر ناک فرقہ حسن بن صباح کا تھا، جو صلاح الدین کی جوانی سے ایک صدی پہلے وجود میں آیا تھا ، یہ مفاد پرستوں کا ٹولہ تھا، نے حد خطر ناک
اور پر اسرار ۔ یہ لوگ اپنے آپکو فدائی" کہلاتے تھے
یاد رہیں کہ پاکستانی طالبان بھی خود کو فدائی کہلاتے ھے۔۔۔ ( جو بعد میں حشیشن کے نام سے
مشہور ھوے، کیونکہ وہ پیشیش نامی ایک نشہ آور شے سے دوسروں کو اپنے جال پھنساتے۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے مدرسہ نظام الملک میں تعلیم حاصل کی، یاد رھیے کہ نظام الملک دنیاے اسلام کے ایک وزیر تھے یہ مدرسہ انھوں نے تعمیر کیا، جہیں میں اسلامی تعلیم دی جاتی تھی ، اور بچوں کو
اسلامی تاریخ اور نظریات سے بہرور کیا جاتا۔
ایک مورح ابن الاطہر کے مطابق نظام الملک حسن بن صباح کے فدائیوں کا پہلا شکار ھوے تھے کیونکہ وہ رومیوں کی توسیع پسندی کی راہ میں چٹان بنے ھوے تھے رومیوں نے ۱۹۹۱ میں انھیں فدائیوں کے ھاتھوں قتل کر دیا۔ ان کا مدرسہ قائم رھا، اور سلطان صلاح الدین ایوبی نے وھی تعلیم حاصل کی۔ اسی عمر میں سپاہ گری کی تربیت اپنے خاندان کے بڑوں سے لی نورالدین زنگی نے اسکو جنگی چالیں سکھائی ، ملک کے انتظامات کے سبق سکھاے اور ڈپلومیسی میں مہارت دی، اس تعلیم و تربیت نے اسکے اندر وہ جذبہ پیدا کیاجس نے آگے چل کر صلیبیوں کے لیے سلطان کو بجلی بنادیا۔ جوانی میں بھی اس نے وہ مہارت زمانت اور اصلیت حاصل کی تھی جو ایک سالار اعظیم کے لیے اھم ھوتے ھے ۔ سلطان صلاح الدین نے فن حرب و ضرب
میں جاسوس گوریلا اور کمانڈو آپریشنز کو
خصوصی اہمیت دی ۔ اس نے دیکھ لیا تھا کہ صلیبی جاسوسی کی میدان میں آگے نکل گیے تھے اور وہ
مسلمانوں کے نظریات پر نہایت کارگر حملے کر رھے تھے۔ سلطان صلاح الدین نظریات کے محاذ پر لڑنا چاھتا جس میں تلوار استعمال نھی ھوتی تھی۔ ان واقعات میں آپ چل کر رکھینگے کہ سلطان صلاح الدین کی تلوار کا ارتو گہرا ھوتا ھی تھا لیکن اسکی محبت کا وار تلوار سے بھی زیادہ مارتا تھا، اس کے لیے تحمل اور بردباری کی ضرورت ھوتی تھی جو سلطان صلاح الدین نے جوانی میں بھی خود کے اندر پیدا کر دی تھی۔ سلطان صلاح الدین کو جب مصر کا وایسرائے بنا کر بیجھا گیا تو وھاں پر سینئر عہدیداروں نے آسمان سر پر اٹھا لیا کیونکہ وہ سب اس
عہدے کی آس لگائے بیٹھے تھے۔
انکی نظر میں سلطان صلاح الدین طفل مکتب تھا لیکن جب سلطان صلاح الدین نے انکا سامنا کیا
اور باتیں سنی تو ان کا احتجاج سرد پڑ گیا۔
یورپین مورح لین پول کے مطابق سلطان صلاح الدین ڈسپلن کا بھت بھی سخت ثابت ھوا۔ اپنے تفریح عیاشی اور آرام کو اپنے اور فوج کے لیے حرام قرار دیا۔ اس نے اپنی تمام جسمانی اور زہنی قوت صرف اس میں خرچ کی کہ ملت اسلامیہ کو پھر سے ایک کر سکیں اور صلیبیوں کو یہاں کی سرزمین سے نکال سکے۔ سلطان صلاح الدین فلسطین پر ھر قیمت سے قبضہ کرنا چاھتا تھا۔ اور یہی مقاصد سلطان صلاح الدین
نے اپنی فوج کو دیئے مصر کا وا یسرائے بن کر سلطان نے کہا۔ اللہ نے مجھے مصر کی سرزمین دی ھے اور اللہ ھی مجھے فلسطین بھی عطا کرے گا
مگر مصر پہنچ کر سلطان پر انکشاف ہوا کہ اسکا مقابلہ صرف صلیبیوں سے بھی ھے بلکل اسکے اپنے مسلمان بھائیوں نے اسکی راہ میں بڑے بڑے حسین جال بنا رکھے ھے جو صلیبیوں کے عزائم اور جنگی قوتوں
سے زیادہ خطر ناک ھے تو یہ تھا ملکہ سا تعارف
مصر میں جن زعما نے سلطان کا استقبال کیا ان میں ایک ناجی نامی سالار بھت اہمیت کا حاملتھا، سلطان نے سب کو سر سے پاؤں تک دیکھا۔ سلطان کے ھونٹوں پر مسکراھٹ اور زبان پر پیار کی چاشنی تھی۔ بعض پرانے افسروں نے سلطان کو ایسی نظروں سے دیکھا جن میں طنز اور تمسحیر تھی۔ وہ صرف سلطان صلاح الدین ایوبی کے نام سے واقف تھے یا یہ کہ یہ ایک شاہی خاندان کا فر دھے اور اپنے چا کا جانشین ھے، وہ یہ بھی جانتے تھے کہ نورالدین زنگی کے ساتھ سلطان صلاح الدین ایوبی کا کیا رشتہ ھے، ان سب کی نگاھوں میں سلطان صلاح الدین ایوبی کی اہمیت بس اسکے خاندان بیک گراونڈ کی وجہ سے تھی یا صرف یہ کہ وہ مصر کا وایسرائے بن کر آیا تھا اس کے سوا انھوں نے سلطان صلاح الدین ایوبی کو کوئی وقعت نہ دی ، ایک بوڑھے
افسر نے اپنے ساتھ کھڑے افس کے کان میں کہا بچہ ھے ۔۔۔۔۔ اسے ھم پال لینگے اس وقت کے مورح پیچھی لکھ پاے کہ آیا سلطان صلاح الدین ایوبی نے انکی نظر میں بھانپ لی تھی کہ تھی۔ وہ استقبال کرنے والے اس حجوم میں بچہ لگ رھا تھا، البتہ جب وہ ناجی کے سامنے ھاتھ ملانے کے لیے رکا تو اسکے چہرے پر تبدیلی آئی۔ وہ ناجی سے ھاتھ ملانا چاھتا تھا لیکن ناجی جو اسکے باپ کے عمر کا تھا سب سے پہلے درباری خوشامدیوں کی طرح جھکا پھر ایوبی سے بغل گیر ھو گیا اس نے ایوبی کی پیشانی کو چھوم کر کہا۔ میری حون کا آخری قطرہ بھی آپ کی حفاظت کے لیے ھو گا تم میرے پاس زنگی اور شردہ کی امانت ھوں میری جان عظمت اسلام سے زیادہ قیمتی تھی محترم اپنے خون کا ایک ایک قطرہ سنبھال کر رکھیں صلیبی سیاہ
گھٹاوں کی طرح چھا رھے ھیں ۔ سلطان نے کہا۔
ناجی جواب میں مسکرایا جیسے سلطان نے کوئی لطیفہ سنایا ھوں، سلطان صلاح الدین اس تجربہ کار سالار کی مسکراھٹ کو غالبا نھی سمجھ سکا۔ ناجی فاطمی خلافت کا پروردہ سالار تھا، وہ مصر میں باڈی گارڈ ز کا کمانڈر انچیف تھا۔ جس کی نفری پچاس ھزار تھی اور ساری کی ساری نفری سوڈانی تھی۔ یہ فوج اس وقت کے جدید ھتیاروں سے لیس تھی اور یہی فوج ناجی کا ھتیار بن گی تھی جس کے زور پر ناجی بے تاج بادشاہ بن گیا تھا، وہ سازشوں اور مفاد پرستوں کا دور رھا، اسلامی دنیا کی مرکزیت ختم ھوئی تھی، صلیبیوں کی بھی نہایت دلکش تخریب کاریاں شروع رھی ۔ زر پرستی اور تعیش کا دور دورہ تھا۔ جس کے پاس زرا سی بھی طاقت تھی وہ اسکو دولت اور اقتدار کے لیے استعمال کرتا تھا۔ سوڈانی باڈی گارڈ فوج کا کمانڈ رناجی مصر میں حکمرانوں اور دیگر سر براھوں کے لیے دھشت بنا ھوا تھا۔ اللہ نے اسکو سازش ساز دماغ دیا تھا۔ ناجی کواس دور کا بادشاہ ساز کہا جاتا تھا بنانے اور بگاڑنے میں خصوصی مہارت رکھتا تھا۔ اس نے سلطان صلاح الدین کو دیکھا تو اسکے چہرے پر ایسی مسکراھٹ ہی جیسے ایک کمزور اور حفیف بھیڑ کو دیکھ کر ایک بھیڑیئے کے دانت نکل آتے ھے ، سلطان صلاح الدین اس زھر مندہ سمجھ بھی سکا۔ ۔ سلطان صلاح الدین کے لیے سب سے زیادہ اھم آدمی ناجی بھی تھا۔ کیونکہ وہ پچاس ھزار باڈی گارڈ ز کا کمانڈ ر رھا۔ اور سلطان صلاح الدین کو فوج کی بھت اشد ضرورت تھی۔ سلطان صلاح الدین سے کہا گیا کہ حضور بڑی لمبی مسافت سے تشریف لاے سے پہلے آرام کر
لیں تو سلطان صلاح الدین نے کہا،
میرے سر پر جو دستار کبھی گی ھے میں اسکے لایق نہ تھا اس دستار نے میری نیند اور آرام حتم کر دی ھے کیا آپ حضرات مجھے اس چھت کے نیچے لیکر نھی جاینگے جس کے نیچھے میرے فرایض میرا انتظار کر
رھے ھیں "
کیا حضور کام سے پہلے طعام لینا پسند کرینگے اسکے نایب نے کہا سلطان صلاح الدین نے کچھ سوچا اور اسکے ساتھ چل پڑا۔۔ لمبے تڑنگے باڈی گارڈ ز اس عمارت
کے سامنے دو رویہ دیوار بن کر کھڑے تھے جس میں کھانے کا انتظام کیا گیا تھا۔
سلطان صلاح الدین نے فوجیوں قد بت اور ھتیار دیکھے تو اسکے چہرے پر رونق آئی لیکن دروازے میں قدم رکھتے ھی یہ رونق ختم ھوی وھاں چار نو جوان لڑکیاں جن کے جسموں میں زھد شکن لچک اور شانوں پر بکھرے ھوے ریشمی بالوں میں قدرت کا حسن سمویا ھوا تھا ھاتھوں میں پھولوں کی پتیوں سے بھری ھوی ٹوکریاں لیں ھوے کھڑی تھی۔ انھوں نے سلطان صلاح الدین کے قدموں میں پتیاں پھینکنا شروع کی اور اسکے ساتھ دف کی تال پر طاوس در باب اور شہنائیوں کا مسحور کن نغمہ ابھرا۔ سلطان صلاح الدین نے راستے میں پھولوں کی پتیاں دیکھ کر قدم پیچھے کر لیے، ناجی اور اسکا نایب سلطان صلاح الدین کے دائیں بائیں تھے۔ وہ دونوں جھک گیے اور سلطان صلاح الدین کو آگے بڑھنے کی دعوت دی ۔ ۔ یہ وہ انداز تھا جو مغلوں نے
ھندوستان میں رائج کیا تھا،
صلاح الدین پھولوں کی پتیاں مسلنے بھی آیا ایوبی نے ایسی مسکراھٹ سے کہا جو لوگوں نے
بھت ھی کم کسی کے ھونٹوں پر دیکھی تھی۔۔۔جاری ہے ابھی
Comments