جسم اور ذہن کا گٹھ جوڑ جسم اور دماغ کا اتحاد چونکہ ان دونوں کا ایک دوسرے کے بغیر گزارہ نہیں اس لئے نفس کے یہ دونوں حصے ایک دوسرے کے ساتھ ایک معاہدے contract میں بندھے ہیں اور وہ ہے ایک دوسرے کی خاطر جینا اور ایک دوسرے کی ہر حد تک ممکن مدد کرنا۔ انسان کے جسم کو چونکہ صرف اور صرف بھوک اور جنسی پیداوار سے غرض ہے اس لئے یہی اس کی پہلی اور آخری ڈیمانڈ ہے جسے ذہن کو ہر صورت پورا کرنا ہے چاہے اس کے لئے اسے کچھ بھی کرنا پڑے۔ نفس کا تیسرا حصہ یعنی حواس sensors اس ساری صورتحال میں غلاموں slaves کا سا کردار ادا کرتے ہیں۔ جسم کی ہر قسم کی بھوک دور کرنے کیلئے ذہن انسان کو چاہے وہ مرد کا ہو یا عورت کا، دنیا داری will کے عظیم مجال جال: میں خود اپنی مرضی سے پھنسنا پڑتا ہے۔ یہ خالق کا ئنات کا منشاء ہے کہ انسان کو آزمایا جائے ۔۔۔ اس سے فرار ممکن نہیں اور نہ ہی کسی بھی صورت قابلِ ستائش ہے۔ ذہن کے لئے سب سے ضروری کام task جسم کو زندہ رکھنا اور اس کی ڈیمانڈ ز کو ہر وقت پورے کرتا رہنا ہے کیونکہ جسم کی موت ذہن کی ناکامی ہے۔اس چکر کو چلائے رکھنے کے لئے حواس کا بے دریغ استعمال ہوتا ہے۔ حواس کی مدد سے ذہن ہر وقت ہر طرف سے معلومات data اکٹھی کرتا رہتا ہے تا کہ بچاؤ survival کے زیادہ سے زیادہ طریقوں ideas کا مالک ہو سکے۔ کیونکہ اسے : ، ہر صورت دنیا میں اپنا وجود قائم رکھنا ہے۔ تمام جانداروں میں صرف انسان ہے جسے موت کا مکمل اور بلند ترین شعور . نعور ہے ۔ یہ خوب جانتا ۔ ا ہے کہ اسے ایک ایسی مخلوق ہے : مرجانا ہے۔ موت کا خوف اسے ہر وقت بے چین anxious رکھتا ہے ۔ یہ بے چینی جلد بازی کو پیدا کرتی ہے۔۔۔ انسان مرنے سے پہلے کچھ کرنا چاہتا ہے۔۔۔ کچھ بھی ! وَكَانَ الْإِنْسَانُ عَجُولًا اور انسان جلد باز ہے (الاسراء 11) ذہن کی اولین جبلت عدم تحفظ insecurity کا احساس ہے۔ یہ ہر سانس کے ساتھ خود کو محفوظ secure کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ نفس کو خدا سے کوئی غرض نہیں ہے۔ اسے اللہ کے ہاں پلٹنے سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ یہ خدا سے بھاگتا ہے، بیزار ہے اور خوف کھاتا ہے کیونکہ یہ دنیا میں رہنے کے لئے بنا ہے۔ اسے اپنے آپ سے ہمیشہ ہمدردی sympathy ہے۔ جسم اس کا محکوم ہے اور یہ ایسا سفاک حاکم ہے جسے اپنے محکوم سے بے پناہ ہمدردی ہے لیکن یہ کسی صورت اسے آزاد کرنے کو تیار نہیں۔ واضح رہے نفس کے بارے میں جتنی بھی بات یہاں ہو رہی ہے اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ دنیا چھوڑ کر الگ ہو کر بیٹھ جانا چاہئے۔ اسلام میں کوئی رہبانیت نہیں اور اللہ پاگل شخص کو پسند نہیں کرتا ۔ یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ ہمیں اس دنیا میں اسی وجود اور ذہن کے ساتھ جینا ہے خیالات سے مکمل نجات کبھی ممکن نہیں ہے۔نفس کی پیچیدگیوں کو مکمل طور پر جان لینے کا دعوی صرف اور صرف دماغی خلجان ہی کہلا سکتا ہے۔ اصل راز یہ ہے کہ ذہن کی فطرت ہے کہ جب یہ کسی شے کو جان لیتا ہے تو اس شے کی اہمیت ، طاقت اور ہیت اس کی نظروں میں ہمیشہ کیلئے ختم ہے ختم ہو جاتی ہے۔ نفس کا علم حاصل کر لینے کے بعد ذہن آہستہ آہستہ نفس کی قید سے آزاد ہو جانے کو ممکن سمجھنے لگتا ہے ۔ وہ جان لیتا ہے کہ وہ صرف نفس نہیں ہے۔ جیسے جیسے آپ اس کتاب میں آگے بڑھتے چلے جائیں گے ویسے ویسے آپ پر آپ کے نفس . کے افعال ، کمالات، اسرار اور کردار عیاں ہوتے چلے جائیں گے۔ یہ آپ کے ذہن کیلئے نئی معلومات ہیں ۔ یہ نیا ڈیٹا ہے ۔ ۔ ۔ اس سے آگاہ ہو جانے کے بعد ، ذہن میں اس کے نصب install ہو جانے کے بعد آپ کی اہمیت آپ کی اپنی نظروں میں تبدیل ہونا شروع ہو جائے گی۔ آپ کے اور آپ کے نفس کے درمیان ایک فاصلہ پیدا ہو جائے گا۔ یہ فاصلہ پیدا ہو جانے سے آپ خود کو خود سے الگ ہو کر دیکھنے کے قابل ہوں گے تو آپ کے اندر نفسیاتی ارتقاء psycological evolution کا آغاز ہو جائے گا۔ آپ جسے "میں" سمجھتے چلے آئے ہیں آپ کو صاف نظر آنے لگے گا بہت بڑا دھوکہ ہے ۔ خود ساختہ مسائل، نفس سے لاعلمی کی وجہ سے پیدا ہونے والی نفسیاتی الجھنیں ، دکھ درداور کرب، حسد، غصہ، نفرت اور انتقام، حد سے زیادہ آگے بڑھنے کی مبالغہ آمیز خواہش، اس بات کا بے کراں دکھ کہ آپ کو کوئی نہیں سمجھتا نہ ہی کوئی جانتا ہے کہ آپ کیا چاہتے ہیں۔ سب کچھ تحلیل ہونے لگے گا اور دھیرے دھیرے پردے کے پیچھے سے ایک باوقار سلجھا ہوا، اللہ کی رضا میں راضی اور اس کی دوستی کے مزاج میں گندھا ہوا ساری دنیا کیلئے سرتا پا محبت ایک نیا انسان نمودار ہونے لگے گا۔نفس کی تربیت اسے اصل علم کی فراہمی سے ہی ممکن ہے۔ اسلام میں نفس کو مارا نہیں جاتا بلکہ اسے اللہ کی راہ میں مسلمان کیا جاتا ہے، اپنا ساتھی بنایا جاتا ہے۔۔۔سب سے وفادار اور مخلص ساتھی ۔۔۔ جو بغیر علم کے ہمارا سب سے بڑا دشمن ہے۔
یادداشت کیا ہے اور کیسے کام کرتی ہے؟ میموری کیا ہے اور یہ کیسے کام کرتی ہے؟ ہمارے ذہن میں یادداشت memory کے بننے کا عمل انتہائی حیرت انگیز اور بے حد دلچسپ ہے۔ اس پر ایک گہری نظر نہ ڈالنا نا انصافی ہوگی ۔ ہمارا دماغ ایک ریکارڈنگ ڈیوائس کے طور پر بھی کام کرتا ہے۔ اسے Recording cognitive بھی کہہ سکتے ہیں طبی اصطلاح میں اسے Process of Mind process کہا جاتا ہے۔ ویسے تو یہ بہت ہی پیچیدہ عمل ہے مگر موضوع کے اعتبار سے مطلب کی بات یہ ہے کہ ہمارا ذہن حواس خمسہ سے ملنی والی ایک ایک خبر کو، ہر ایک احساس ہر جذبے کو ریکارڈ کر رہا ہے محفوظ کر رہا ہے اور ان احساسات و جذبات کو معلومات data میں تبدیل کر رہا ہے۔ یہ بے حد تیز رفتار عمل ہے کہ ہمیں اس کا احساس تک نہیں ہوتا کہ سب محفوظ کیا جارہا ہے۔ سارا دن جو مشاہدات حاصل ہوتے ہیں خواہ وہ دیکھنے سے ہوں ، چکھنے سے تعلق رکھتے ہوں ، سونگھنے سے عمل میں آئیں، جو کچھ دیکھا سنا ہو اور جو بھی محسوس کیا ہو وہ عارضییادداشت short term memory کی شکل میں محفوظ کیا جاتا ہے اور رات کو نیند کے دوران غیر ضروری یادیں memories ختم delete کر د...
Comments