مایوسی کا مطلب ........ ناامیدی شکستہ دلی کم ہمتی، مایوسی ..... انسان کی گردن میں ایک ایسا وزنی طوق ہوتا ہے جو اس سے زندگی کی آزادی چھین لیتا ہے، مایوسی ...... اچھے بھلے آدمی سے محنت اور کوشش کرنے کی صلاحیت چھین لیتی ہے۔
مایوسی کا شکار انسان ہر وقت اپنے دل پر ایک بوجھ محسوس کرتا ہے، زندگی میں رونما ہونے والے
ہر واقعہ کو وہ مایوسی کی عینک سے دیکھتا ہے، اگر اس خطرناک بیماری کا بروقت علاج نہ کیا جائے تو اس کا مریض نا امید ہو کر اپنے پروردگار سے بھی مایوس ہو جاتا ہے، اس کی ذات بابرکت پر اس کا بھروسہ اور اعتماد کمزور پڑ جاتا ہے، اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اپنی زندگی کے ہر کام میں اسے کامیابی اور امید کی ایک کرن بھی نظر نہیں آتی۔مایوسی کی بیڑیوں کو اتار پھینکیے !
در حقیقت مایوسی کی صحیح تشریح کی جائے تو یہ انسان کی ایک منفی نفسیاتی کیفیت کا نام ہے، جو اسے اپنے معاملات میں بلند ہمتی سے کام لینے نہیں دیتی، اس کے دل کو پریشان اور مغموم رکھتی ہے اور امید جو زندہ دلوں کی روح ہوتی ہے اس کے دل سے
چھین لیتی ہے۔
ایک کامل ایمان والے کے دل میں مایوسی کبھی بھی گھر نہیں بنا سکتی اس کا دروازہ نہیں
کھٹکھٹا سکتی، کیونکہ وہ اپنے رب کا فرمان پڑھتا ہے:
وَلَا تَيْأَسُوا مِن رَّوْحِ اللَّهِ إِنَّهُ لَا يَيْنَسُ مِن رَّوْحِ اللَّهِ إِلَّا الْقَوْمُ
الْكَافِرُونَ
اور اللہ کی ذات سے نا امید مت ہو، بلاشبہ اللہ کی ذات سے نا امید تو کافر لوگ ہی
ہوا کرتے ہیں۔
(يوسف : (87)پریشان در حقیقت گناہوں کی وجہ سے آتی ہے
( قرآنی فیصلہ )
ما أنساب من خمسة فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي أَنْفُسِكُمْ إِلَّا فِي كتاب من قبل أن نَبَرَ أَمَا إِنْ ذَلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ * لِكَيْلَا تأسوا على ما عاتك ولا تفرحُوا بِمَا آتَاكُمْ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ كل متقال نیرو
زمین پر جو بھی مصیبت نازل ہو یا تم پر جو بھی آفت ٹوٹ پڑے وہ اس زمین کو ہمارے وجود بخشنے سے پہلے ہی ایک کتاب میں لکھی ہوئی موجود تھی، یقیناً یہ اللہ کے لیے بہت آسان ہے، تاکہ تم چھوٹ جانے والی ہر چیز پر افسوس نہ کرو اور نہ ہی ملنے والی چیز پر خوشیاں مناؤ، اور اللہ کسی بھی متکبر اور فخر کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔ (الحدید :22-23) جب ایک مومن کا اس بات پر پختہ یقین ہو تو بھلا وہ کیسے مایوس اور پریشان ہو سکتا ہے؟ بلکہ وہ تو اپنی قوتِ ارادی اور پختہ عزم کے سہارے اس مصیبت اور پریشانی سے
سرخرو ہو کر نکلنے کی راہیں تلاش کرتا ہے۔امید پر دنیا قائم ہے!
قرآن کا اسلوب یہی ہے کہ وہ ایمان والوں کے دلوں میں امید اور نیک فالی کے بیچ ہوتا ہے، آرزوؤں کے چراغ روشن کرتا ہے، نیک تمناؤں کی کرنیں دکھاتا ہے۔
لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَّحْمَةِ اللَّهِ اللہ کی رحمت سے ناامید مت ہو۔ ایک عالم کا مقولہ ہے : لَوْ لَا الا مَلْ مَا بَنَى بَانِ بُنْيَانًا وَلَا غَرَسَ غَارِسُ غَرْسًا اگر اس دنیا میں امید کی کوئی حقیقت نہ ہوتی تو کوئی بھی معمار کسی بھی عمارت کی بنیاد نہیں ڈالتا اور نہ ہی کوئی درخت لگانے والا زمین میں کوئی پودا لگا دیتا۔ کسی دانا کا یہ شعر ہے جس میں ناامیدی سے نجات کا راستہ نظر آتا ہے۔ وَلَا تَيْأَ سَنَّ مِنْ صُنْهِ رَبِّكَ إِنَّهُ صَمِينَ بِأَنَّ اللَّهَ سَوْفَ يُدِيلُ عنقریب اللہ حالات بدل دے گا۔ فَإِنَّ اللَّيَالِيَ يَزُولُ نَعِيمُهَا
( سورة الزمر 33
اپنے رب کی کاریگری سے نا امید مت ہو کہ وہ تو اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ
تُبَشِّرُ أَنَّ النَّائِبَاتِ تَزُولُ
کیا رات کی دم توڑتی راحتیں اس بات کی خبر نہیں دیتیں کہ مصیبتیں بھی اسی طرح دم
توڑ جائیں گی۔
أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّيْلَ بَعْدَ ظُلَامِهِ
عَلَيْهِ لِإِسْفَارِ الصَّبَاحِ دَلِيلُ
ارے نادان! کیا تو رات کے ڈوبتے
اندھیروں میں طلوع ہوئی روشن صبح کے آثار نہیں
دیکھتا؟4
5
شریعت کی نظر میں مایوسی کا حکم کیا ہے؟
اسلام کی نظر میں مایوسی حرام اور ممنوع ہے :
اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتے ہیں:
فَلَا تَكُنْ مِنَ الْقَانِطِينَ
کہ مایوس ہو جانے والوں میں سے مت ہو جاؤ۔“
)55( : الحجر(
اللہ رب العزت نے اپنی رحمت سے مایوس ہو جانے والے کو کافر اور گمراہ
بتلایا ہے اسی طرح سورۃ یوسف میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: إِنَّهُ لَا يَيْأَسُ مِنْ رَّوْحِ اللَّهِ إِلَّا الْقَوْمُ الْكَافِرُونَ
”بے شک اللہ کی رحمت سے تو کافر قوم ہی مایوس ہوتی ہے۔“ (یوسف: 87)
اور ارشاد باری تعالی ہے:
وَمَنْ يَقْنَطُ مِنْ رَّحْمَةِ رَبِّهِ إِلَّا الضَّالُونَ
اور اللہ کی رحمت سے گمراہ لوگوں کے علاوہ کون ناامید ہو سکتا ہے؟
)56 : الحجر(
حضرت عبداللہ بن مسعود بنی اللہ فرماتے ہیں:
میں دہکتا ہوا انگارہ اپنے منہ میں رکھ لوں یہاں تک کہ وہ سرد پڑ جائے، یہ بات مجھے زیادہ پسند ہے بہ نسبت اس بات کے کہ اللہ کے کسی فیصلہ کے متعلق یہ کہوں کہ لیت
الأمر لم يكن كذلك کاش کہ ایسا نہ ہوتا ۔
مایوسی پر وعید کی وجہ
مایوسی پر اتنی سخت وعید اس وجہ سے ہے کہ اس کا مرتکب نعوذ باللہ اللہ رب العزت کو جاہل گردانتا ہے، ناواقف سمجھتا ہے حالانکہ وہ خود فرماتے ہیں:
أَلَّا لَهُ الْخَلْقُ وَالامْرُ تَبَارَكَ اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ پیدا کرنا اور پھر موت تک کے فیصلے کرنا تن تنہا اس قادر مطلق ہی کے ہاتھ میں
ہے۔ اس سب جہانوں کے پروردگار کی ذات بڑی بابرکت ہے ۔“ (الاعراف: 54)
ابن حبان میں ایک حدیث قدسی مروی ہے : میں اپنے بندے کے گمان کے مطابق فیصلہ کرتا ہوں سو وہ جیسا گمان کرلے ۔ یعنی اگر بندہ اپنے پروردگار سے خیر کی بھلائی کی اور بہتری کی آس لگاتا ہے تو اس کے ساتھ خیر کا معاملہ ہی کیا جاتا ہے اور اگر وہ اپنے پروردگار سے شرکی، برائی کی اور خرابی کی توقع رکھتا ہے تو اس کے ساتھ اس کی توقع کے مطابق ہی سلوک کیا جاتا ہے۔
مایوسی کے اسباب کیا ہیں؟
مایوسی کا ایک بڑا سبب انسان کا ہر کام میں جلد بازی سے کام لینا ہے، کسی کام کی
مطلوبہ اہمیت حاصل کیے بغیر، منصوبہ بندی کیسے بغیر اس کی اتنی مدت میں پورا ہو جانے کی
توقع کرنا جو حقیقت کی دنیا میں محال ہو، عملاً ناممکن ہو۔
جلد بازی“ کہلاتا ہے۔ جلد بازی انسان کی فطرت
میں داخل ہے۔ خالق انسان خود اس بات کی خبر دیتا ہے۔ وَكَانَ الْأَنْسَانُ عَجُولا (الأسرا: (11)
اور انسان بڑا جلد باز واقع ہوا ہے۔“
یہ بات حقیقت ہے کہ جلد باز انسان کی عمر کم ہوتی ہے، وہ اکثر مایوسی کا شکار رہتا ہے
کیونکہ ظاہری بات ہے دنیا اس کی خواہش اور تمنا کے تابع تو نہیں ہے کہ وہ جیسا اور جب چاہے
ویسا ہی اسی وقت ہو جائے، بلکہ ہر کام کے پورا ہونے کا ایک وقت تقدیر میں مقرر ہوتا ہ
Comments