انسان ایک مخلوق ہے اسے اس کے خالق نے پیدا کیا ہے۔ یہ ایک مشی ہے، ایک روبوٹ
ہے اور اس کا ایک تخلیق کار designer ہے۔ جب وہ اسے پیدا کر چکا design کر چکا تو اس خالق creator نے اس کے اندر اپنی روح کو پھونک دیا اور اس بے جان وجود کو متنفس کر دیا ۔۔۔ یہ مشین یہ روبوٹ زندہ ہو گیا
alive ہو گیا۔ اس وجود میں بجلی energy دوڑ گئی ۔۔۔
الَّذِي أَحْسَنَ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقَهُ وَبَدَا خَلْقَ الْإِنْسَانِ مِنْ طِينٍ ثُمَّ جَعَلَ نَسْلَهُ مِنَّهُ مِنَّ سُلَلَةٍ مِنْ سُلَلَةٍ خَ فِيهِ مِنْ رُّوْحِهِ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَفْدَةَ
قَلِيلًا مَّا تَشْكُرُونَ
جس نے جو چیز بنائی خوب بنائی ، اور انسان کی پیدائش مٹی سے شروع کی۔ پھر اس کی اولاد نچڑے ہوئے حقیر پانی سے بنائی۔ پھر اس کے اعضا درست کیے
اور اس میں اپنی روح پھونکیاور تمہارے لیے کان اور آنکھیں اور دل بنا یا تم بہت تھوڑ ا شکر کرتے ہو۔
(السجده 7 تا 9)
غور کیجئے آیات میں جب تک روح پھونکنے کا نہیں کہا تب تک اُس کہا اور جب روح پھونک دی مشین چل پڑی انسان زندہ ہوا تو تمہارے اور تم کہا یعنی اب تو میری بات کو سننے
سمجھنے کے قابل ہوا۔ بات کو سمجھتے ہیں۔۔۔
جذبات کی - Heart is the center of emotions دل جذبات کا مرکز ہے پیدائش احساسات سے ہوتی ہے یعنی حواس sensors سے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ حواس احساسات میں feelings ہیں اور احساسات جذبوں emotions کو
پیدا کرتے ہیں اور جذبات انرجی energy ہیں۔
اپنی نبض پر ہاتھ رکھیں دل ایک پمپنگ سٹیشن pumping station کی طرح کام کر رہا ہے آپ زندہ ہیں ۔۔۔ انرجی گرم ہوتی ہے اور ہر گرم شے انرجی ہے۔ اپنی نبض کے او پر جلد کو محسوس کریں آپ کا جسم گرم ہے ۔ آپ کا ایک درجہ حرارت ہے ۔ ہر وہ شے جو باہر
سے گرم ہوتی ہے اندر سے جل رہی ہوتی ہے حتی کہ انسان بھی ۔۔۔
اس سسٹم کو پورے دھیان سے سمجھنے کی کوشش کریں۔۔۔
دل کو ہر صورت جذبات چاہئیں ۔ یہ جذبوں کی دبیز چادروں sensations میں لپٹا ہوا زندہ ہے۔ اسے دھڑکنے کیلئے صدمہ چاہئے جھٹکا shock چاہئے ۔ یہ کمک اسے جذبات دیتے ہیں ۔ دل کو رنج والم ، خوشی اداسی ، بغض کینہ ، نفرت اور محبت ، نیکی اور بدی ، در دخوف اور بے چینی سمیت نجانے ہر لمحہ کیا کیا چاہئے ۔ یہ جذبات سے چلتا ہے یعنی جذباتی عضو emotional organ ہے۔ یہ پھنچتا ہے ، پھیلتا ہے، سکڑتا ہے گا لتا ہے، سکڑتا ہے گھٹتا اور بڑھتا
ہے۔ جذبات اس کا ایندھن fuel ہیں۔ہمارے جسم میں کسی بھی مشین کی طرح تاریں wires ہیں انہیں رگیں veins کہتے ہیں۔ ایک خون کی ہیں جن کا کام خون کو جسم میں لے جانا اور واپس لے آنا ہے دوسری تاریں nerves اعصاب کہلاتی ہیں ۔ ان کا کام جذبات و احساسات کو دل سے دماغ اور دماغ سے دل تک لانا بھی ہے اور یہی اعصابی رگیں دماغ کو حواس اور جسم کے ساتھ
جوڑے ہوئے ہیں۔ یہ بہت ہی پیچیدہ نیٹ ورک ہے۔
اب ان سب کا آپس میں تعلق دیکھتے ہیں ۔۔
ذہن میں چونکہ ہماری زندگی کا سارا ریکارڈ موجود ہوتا ہے اور سامنے کی بات ہے کہ یہ ریکارڈ اعلیٰ درجے کا نہیں ہوتا۔ بچپن میں کوئی بچے باپ پر گیا ہے۔ ریکارڈنگ ہو رہی ہوتی نی ہے۔ ہے۔ نفس نفر تشکیل کے مرحلے با ابچے کے پاس بیٹھ کر ماں کو کہتا ہے کہ یہ بالکل اپنے مرحلے میں پہلے 9 سے 10
سال تک ہوتا ہے۔
پھر کوئی کہتا ہے کہ بالکل اپنے ماموں کی طرح غصے کا تیز ہے۔ ریکارڈ نگ آن ہے۔۔۔ یوں آہستہ آہستہ باہری محرک سے اور پھر تعلیم اور دیگر ہزاروں عوامل سے جو کہ روایتی ہی ہونے لگتی construct تشکیل پانے لگتی ہے personality ہوتے ہیں شخصیت
ہے۔
میرا یہ نام ہے۔ یہ میرے ماں باپ، بہن بھائی رشتے دار ہیں ان میں سے اتنے جھگڑالو، اتنے فصیل ، اتنے لوگ اچھے ہیں اور اتنے برے، یہ میر اسکول، کالج، یو نیورسٹی ہے۔ یہ تعلیم ہے۔ ہے ۔ یہ میری بیوی ہے یہ میرے بچے ہیں ، یہ ثواب ہے یہ گناہ ، یہ میری عزت اور یہ میری بے عزتی ہے ۔ مجھے پیسہ کمانا ہے عزت بنانی ہے گھر بار لینا ہے اور معاشرے میں
کامیاب زندگی گزارنی ہے۔ مجھے یہ کرنا ہے اور یہ نہیں کرنا۔ یہ کھلے عام کرنا ہے اور یہ
چھپ کر کرنے والے کام ہیں۔سب کچھ ہمیں دنیا بتاتی ہے، سکھاتی ہے، پڑھاتی ہے اور پھر انسان کو دوسرے انسانوں کے ہجوم میں پھینک دیا جاتا ہے۔ آزمائش شروع ہو جاتی ہے۔ دیکھتے ہیں کیا کرتا ہے کدھر کو
جاتا ہے۔۔۔
نفس کی چونکہ تربیت ہی اس لحاظ سے ہوتی ہے کہ پہلے پیچیدگی میں جائے، الجھن میں جائے، گناہ کو لیکے پھر جب دباؤ پڑے تو اپنی تلاش کو پلٹے ۔۔۔ کم تربیت یافتہ immature
نفس دن رات اپنی ذات کو سنوارنے میں مصروف رہتا ہے۔
اس حالت میں نفس دو حالتوں پر ہوتا ۔ پر ہوتا ہے۔ یہ ہر وقت ماضی past میں رہنا پسند کرتا ہے۔ ماضی کے اچھے اور بڑے واقعات کی ادھیڑ بن میں ہر لمحہ مگن رہتا ہے۔ ماضی کی بھول بھلیوں سے جب ہوش میں آتا ہے تو چھلانگ لگا کر مستقبل future میں جا گھستا ہے اور ماضی کے اچھے برے واقعات و تجربات کو استعمال کرتے ہوئے حال present میں بیٹھ کر اپنے
مستقبل کے خدو خال کو سنوار نے لگتا ہے crafting کرنے لگتا ہے۔
کل مجھے فلاں شخص نے یہ بڑی بات کہی تھی اس وقت تو میں کچھ نہ کر سکا کل ملے گا تو مزہ چکھاؤں گا ایسا جواب دوں گا کہ مزہ آجائے گا۔۔۔ یہ کبھی حال میں نہیں رہنا چاہتا حالانکہ جسم حال میں رکھا ہوا ہے۔۔۔ اپنے حواس sensors کو استعمال کرتے ہوئے ماضی اور مستقبل میں مصروف عمل ذہن مسلسل دل کو جذ بات بھیج رہا ہے۔ کبھی خوشی کا جذبہ کبھی غم کا بے کراں احساس، کبھی نفرت کا سلگتا ہوا پیغام تو کبھی حسد کی آگ کے جلتے
ہوئے کو ملے۔
ہزاروں جذبات اس نفس کی جانب سے ہر لمحے دل کو پہنچ رہے ہیں اور دل ان کی آمد و رفت سے کبھی زور سے کبھی آہستہ کبھی ہیجان میں کبھی دباؤ میں کئی طرح سے دھڑک رہا ہے۔ یہ دل کا زنگ ہے یہ اللہ کی یاد سے تہی دامن ایک دل کی خوں رلا دینے والی سچی داستان ہےجو ہم سب میں تقریباً ہم سب میں مسلسل لکھی جارہی ہے۔۔۔ یہ ہر بے قرار دل کی حالت ہے۔۔۔ ایک مردہ ہوتے، تھکتے ہوئے دل کا عالم realm ہے۔۔۔ اس بے قراری اس بے چینی اور اس بے پناہ ہیجان کے عالم میں جو دھڑکن پیدا ہورہی ہے وہ صالح نہیں ہے، اطمینان والی نہیں ہے اس دھڑکن سے بیماری پیدا ہو رہی ہے، نفسیاتی امراض لاحق ہیں،
جنون ہے، فساد ہے اور لڑائی جھگڑے ہیں۔ اس سے رشتوں کا کا تقدس پامال ہے۔۔۔ یہ نفسا نفسی کی دھڑکن کن ہے۔ ہے۔۔۔ یہ آپ کی ، میری اور ہم سب کی دھڑکن ہے۔ یہ ہمارے معاشرے کا زیر و بم ہے ۔۔۔ یہ من حیث القوم
ہماری ہارٹ بیٹ heart beat ہے۔ بات یہاں تک ہی محدود نہیں رہتی ۔۔۔ اس سارے چکر میں ایک نقصان تو من حیث القوم ہو رہا ہے مگر ایک انفرادی نقصان بھی ہے جو سب سے بھیانک ہے۔ کبھی آپ نے غور کیا کہ جب آپ صبح بیدار ہوتے ہیں تو سب
سے پہلے آنکھ کھلنے کے بعد آپ کے ذہن میں آنے والا خیال کونسا ہوتا ہے؟
وہ خیال آج کے سب سے زیادہ ضروری کاموں کا ہے۔۔۔
دانت صاف کرتے ہوئے آپ کیا سوچ رہے ہوتے ہیں؟ ناشتہ کرتے ہوئے اندر کیا کھچڑی پکتی ہے؟ سارا دن لاکھوں کروڑوں محرکات stimulus میں گھرا ہوا انسان اس بات سے بے خبر ہوتا ہے کہ اس کی انرجی کہاں لگ رہی ہے۔ کہاں انویسٹ invest
ہو رہی ہے اور کہاں ضائع waste ہو رہی ہے۔
ساری رات نیند کے بعد جو کہ موت ہے اللہ آپ کو دنیا میں واپس بھیج دیتا ہے۔۔۔
وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّكُمْ بِالَّيْلِ وَيَعْلَمُ مَا جَرَحْتُمْ بِالنَّهَارِ ثُمَّ يَبْعَثُكُمْ فِيهِ
لِيُقْضَى أَجَلٌ مُّسَمًّى ثُمَّ إِلَيْهِ مَرْجِعُكُمْ ثُمَّ يُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ وَهُوَ الْقِيْرِ فِيْرِفِيْهُ اِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً حَتَّى إِذَا جَاءَہوتا نیند سے اٹھنے کے فوری بعد آپ کی انرجی فل چارج boosted ہوتی ہے۔ دل آرام میں تا ہے اور جسم بھی۔ پھر اسی لمحے نفس حرکت میں آجاتا ہے active ہو جاتا ہے۔خیال سوچوں میں بدلنے لگتے ہیں اور سوچیں تصوراتی منصوبہ سازی میں ۔۔۔ یوں سارا دن انسان جذبات و احساسات اور خیالات کے تھپیڑے کھاتا رہتا ہے جیسے لکڑی کا کوئی ٹکڑا
أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْهُ رُسُلُنَا وَهُمْ لَا يُفَرِّطُونَ
اور وہ وہی ہے جو تمہیں رات کو اپنے قبضے میں لے لیتا ہے اور جو کچھ تم دن میں کر چکے ہو وہ جانتا ہے پھر تمہیں دن میں اٹھا دیتا ہے تا کہ وہ وعدہ پورا ہو جو مقر ر ہو چکا ہے، پھر اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے پھر تمہیں خبر دے گا اس کی جو کچھ تم کرتے تھے۔ اور وہ اپنے بندوں پر غالب ہے، اور تم پر نگہبان بھیجتا ہے، یہاں تک کہ جب تم میں سے کسی کو موت آ پہنچتی ہے تو ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے اسے قبضہ میں لے لیتے ہیں اور وہ ذرا کو تا ہی نہیں کرتے۔
(الانعام 60 تا 61)
گہرے سمندر میں ہو اور سمند رطوفان میں ہو۔۔۔
ہر خیال ۔ ہر سوچ اور ہر احساس انرجی کو خرچ رہا ہے burn کر رہا ہے۔ سادہ سی بات ہے بیٹری ڈاؤن ہو رہی ہے حتی کہ رات کو تھکا ہارا انسان اپنے بستر پر لیٹ کر اپنے خونی رشتوں
بیوی بچوں سے منہ پرے کر کے کہیں کھو جانا چاہتا ہے۔۔۔
اتنی تھکن کس بات کی ہے؟ اچانک اپنوں سے اتنی بیزاری کیوں ہو رہی ہے؟ منہ پھیر کر آنکھیں بند کر کے یہ انسان کہاں جانا چاہ رہا ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ مر رہا ہے؟ کہیں یہ تھک کر ہار کر گر تو نہیں پڑا ؟ نفس موت سے ڈرتا ہے اور سوچتا ہے کہ صبح اٹھ جاؤں گا۔ مزید انرجی مانگتا ہے، اپنی عارضی دنیا کو بنانے سنوارنے کیلئے ایک چھوٹا سا مصنوعی خدا اپنےاصل رب سے انرجی مانگ رہا ہے ۔۔۔ اگر خالق کی مرضی ہوئی تو ایک دن اور مل جائے گا ، کل کا دن، ایک اور ادھار کی خدائی کا دن ۔۔۔ مانگا ہوا دن ۔۔۔ دیا ہوا دن ۔۔۔ انسان اشرف المخلوقات ہے اگر اس کی آزمائش نہ ہو، اگر اتنا بڑا جال نہ پھینکا جائے تو یہ اتنی عظیم انرجی رکھتا ہے اس قدر بجلیاں اس میں بھری ہیں کہ یہ زمین پر ایک لمحہ رکنا گوارہ نہ کرے ۔ یہ اس کا گھر نہیں ہے ۔۔۔ اس کا گھر تو آسمانوں میں ہے۔۔۔ یہاں تو یہ قید
ہے۔ نفس کی تخلیق کا مقصد انسان کی آزمائش ہے۔ سارا دن نفس کا پورا زور اس انرجی کو ختم کر دینے میں لگتا ہے جو رات میں انسان کو عطا ہوتی ہے اور دل سے لمحہ بہ لمحہ دھڑکن بہ دھڑکن تقسیم ہوتی ہے۔ اسی انرجی سے انسان دیکھتا، سونگھتا، چکھتا ، سنتا اور محسوس کرتا ہے ۔ اسی انرجی سے علم کو حرکت ہے۔ یہی انرجی زندگی ہے۔ اسی انرجی کی کمی یا ضیاع سے الجھن ، غصہ دباؤ ، بیماری اور بے چینی غم والم پیدا ہوتے
ہیں۔ یہ خالق کی تخلیق ہے یہ creation ہے جو ہر لمحہ جاری وساری ہے ۔ اسی کو بچانا ہے۔ اسی سے وہ نظر آتا ہے جو ہے مگر دکھائی نہیں دیتا۔۔۔ اسی انرجی کے بڑھ جانے سے انسان "احسن تقویم" ہوتا ہے اور اسی کی کمی سے "اسفل السافلین" ہو جاتا
ہے۔۔۔ اسی سے انسان حیوان بنتا ہے اور یہی حیوان کو انسان بنا دیتی ہے۔ یہی راز ہے۔۔۔ یہ وہ پہلا دروازہ ہے جس سے معرفت کی دنیا ئیں دکھائی دیتی ہیں۔ یہی ہے، یہ اللہ کا امر ہے، رسائی ہے اور یہی پردہ ہے۔ ی ہے، نور ہے، یہ تقدیر ہے اور یہی تدبیر ہے، یہ بجلی ۔ اسی سے وہ علم عطا ہوتا ہے جو کتابوں میں نہیں ہے۔۔۔ اسی سے وہ عقل عطا ہوتی ہے جس کی
قسمت میں حضوری ہے۔ جب یہ انرجی درست استعمال ہونے لگتی ہے۔۔۔ گناہوں میں، بڑے احساسات میں اور فتیح جذبات میں اس کا استحصال ختم ہوتا ہے تو پھر یہ بڑھتی ہے، چمکتی ہے، آنکھوں کو تیزکرتی ہے اور سماعتوں کو لا محدود کر دیتی ہے۔ پھر علم کا ، اصل علم کا نزول شروع ہوتا ہے۔ کسی بھی علم کی اصل اُس علم کا عرفان ہوتا ہے۔ عرفان اُترتا ہے۔۔۔ یہ ہدایت ہے۔۔۔ یہ زمین سے نہیں ملتا ۔۔۔ یہ آسمانوں سے براہ راست بندے کے دل پر اُتارا جاتا
کیا جاتا ہے۔ download ہے۔۔۔ پھر رستے سمجھائے جاتے ہیں۔ ۔ ۔ رکاوٹیں ہٹائی جاتی ہیں ۔۔۔ اعلیٰ شعور تک رسائی دی جاتی ہے۔۔۔ اس انرجی کو بچانے کیلئے جہاد کرنا پڑتا ہے۔ اپنے نفس سے جہاد کرنا پڑتا ہے کیونکہ یہ نفس چور ہے یہ لٹیرا ہے اس نور کا۔ ۔ ۔ ہم جہاد نفس کا علم پڑھ رہے ہیں ۔ اللہ میرے قلم کو اور آپ کے ذہن و دل کو توفیق بخشے۔ سمجھ عطا فرمائے ۔ آمین
علمی کارن دنیا اُتے آون ہے انساناں سمجھے علم وجود اپنے نوں نئیں تاں وانگ حیواناں
( میاں محمد بخش )
Comments