میں کون ہوں؟ خودی کیا ہے؟ نفس کیا ہے؟ Who am I? What is Ego? What is Self? اپنی پہچان کیلئے جب ہم قرآن مجید سے مدد لیتے ہیں تو اللہ نے دو طرح کے دشمنوں کا ذکر کیا ہے جن میں سے ایک شیطان اور دوسرا نفس انسان ہے۔ شیطان کھلا اور نفس چھپا ہوا دشمن ہے۔ شیطان کے بارے میں علم عام ہے لیکن نفس کا علم دشوار اور پوشیدہ رہا ہے۔ قرآن کریم میں انتہائی شدت کے ساتھ نفس کے تزکیہ کا حکم دیا گیا ہے۔ تزکیہ تب ہی کیا جاسکتا ہے جب ہم اس دشمن کو جان لیں خوب اچھی طرح پہچان لیں کہ آخر نفس ہے کیا ؟ اس کے افعال کیا ہیں؟ تبھی ہم اس قابل ہو سکتے ہیں کہ اسے پاک کر سکیں ۔ آئیے اللہ کا نام لے کر نفس کے طلسم ہوشربا میں اترتے ہیں اور اسے جاننے کا آغاز کرتے ہیں۔ بنیادی طور پر نفس کے تین حصے ہیں ۔۔۔ بسم (Body) ، حواس خمسہ (Five Senses) ، ذہن (Mind) هم بالترتیب تینوں کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ جسم ایک رونمائی ہے Body is appearance ۔ ہر جاندار کا وجود اُس کے جسم کے ساتھ ہے ۔ جسم واحد جرثومے singular cell سے بنا ہے ۔ یہ ایک حیاتیاتی مادہ matter ہے۔ جسم body ایک زندہ چیز نہیں ہے۔ حواس خمسہ موجود نہ ہوں دماغ کام نہ کر رہا ہو تو جسم کی اپنی حیثیت ایک مردہ شے کی ہے۔ جسم کا عقل سے براہ راست کوئی زیادہ تعلق نہیں ہے۔ جسم حیوانی ہے اور اس میں دو جبلتیں ہیں۔ بچاؤ survival اور افزائشِ نسل یعنی reproduction۔ جسم صرف بھوک مٹانے اور اپنی پیداوار بڑھانے reproduction میں دلچسپی رکھتا ہے اسے باقی کسی شے سے غرض نہیں۔ گو کہ انسانی جسم اپنی بناوٹ اور نفاست کے اعتبار سے تمام حیوانی اجسام میں اعلیٰ وجود رکھتا ہے لیکن پھر بھی یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ بنیادی طور پر حیوان اور انسان کے جسم میں حیاتیاتی اعتبار سے کوئی زیادہ فرق موجود نہیں۔ زندگی اس کی سرشت ہے یہ بذات خود زند خود زندگی ہے اسے اس دنیا میں بچنے کیلئے survive کرنے کیلئے خوراک چاہیے اور یہی اس کی اولین ترجیح ہے۔ بھوک مٹانے کے بعد یہ خود کو ابدی eternal کرنا چاہتا ہے، لازوال ہونا چاہتا ہے۔ اس کے لئے اُس کے پاس صرف یہی ایک راستہ بچتا ہے کہ وہ اپنی نسل کو جنسی عمل sex سے آگے بڑھائے۔ اس کیلئے یہ کسی لذت کا طلب گار نہیں ۔ لذت pleasure جسم کا نہیں ذہن کا مسئلہ ہے۔ اسے تو صرف خود کو آگے بڑھانا ہے organism کو deliver کرنا ہے تا کہ زندگی قائم رکھ سکے۔ یہی اس کی عقل ہے اور اتنا ہی اس کا مقدر ہے۔ یہ مٹی سے بنا ہے، انسان کو اسی دنیا میں ایک لباس کی صورت عطا کیا جاتا ہے۔ ایک ایسا لباس جو انسان کا اپنا نہیں بلکہ اس زمین کا ہے۔ وجود اس دھرتی کا ہے جو موت کے وقت اسی دھرتی کو سونپ دیا جاتا ہے جیسے کوئی ادھار کو لوٹا دیتا ہے اسی طرح مٹی کا وجود مٹی واپس لے لیتی ہے یہاں تک کہ انسان روز قیامت دوبارہ اٹھائے جائیں اُن کے وجود کو اسی مٹی میں ضم ہو جانا ہے، فنا ہو جانا ہے، مٹی کو مٹی میں مل جانا ہے۔ جسم نہیں جانتا کہ وہ زندہ ہے یا مردہ۔ اسے کوئی خبر نہیں کہ تکلیف کیا شے ہے۔۔۔ یہ سب تو اسے ذہن بتاتا ہے حواس بتاتے ہیں۔ اس بات کو ایک مثال سے سمجھتے ہیں۔ فرض کیجئے ایک شخص کو میز پر لٹا کر اس سے اس کا نام ، بیوی ، بچے تعلیم اور کاروبار کا پوچھا جائے جواب ملنے کے بعد اس کے دونوں بازو کاٹ دیئے جائیں اور پھر یہی پوچھا جائے کہ تم کون ہو تو جواب پہلے والا ہی ملے گا۔ پھر دونوں ٹانگیں بھی جسم سے جدا کر دی جائیں اور وہ شخص میز پر پڑا ہوا و محض محض ایک ایک دھڑ دھڑ ہی ہی ر رہ جائے تب بھی بھی اس اس کا کا نام نام تعلیم تعلیم ، کاروبار ، گھر بار، بیوی بچے وہی رہیں گے۔ اس کا صاف مطلب ہے کہ وجود شخصیت کا ایک حصہ ضرور ہے لیکن مکمل شخصیت ہرگز نہیں ہے پھر وہ کون ہے جو جسم سے ماوراء ہے؟ یہ صرف جسم کا وہ تعارف ہے جو تزکیہ نفس کیلئے انسان کو درکار ہے وگرنہ جسم اللہ رب العزت کی حسین ترین تخلیق ہے۔ اس کے اندرونی و بیرونی اعضاء کی تخلیق پر قیامت تک بھی غور کیا جاتا رہے تو کبھی بھی یہ پتا نہ چل پائے گا کہ یہ آخر ہے کیا ؟ آج سے قریباً تیس سال پہلے جا کر دیکھیں کہ سائنس اس جسم کو اتنا کم جانتی تھی اتنا under estimate کر رہی تھی کہ ہر بیماری کیلئے صرف ایک ہی ڈاکٹر ہوا کرتا تھا لیکن پھر انسان کو احساس ہوا کہ یہ اتنا آسان نہیں ہے تو ہر عضو کی سپیشلائزیشن کا دور شروع ہواحتی کہ دانتوں کیلئے سات سال کی طبی تعلیم لازم قرار پائی۔ جتنا اندر اتر - جتنا اندر اترتے چلے جاتے ہیں اتنا ہی راز الجھتا چلا جاتا ہے حتیٰ کہ بات کلوننگ سے بڑھ کر میوٹیشن تک جا پہنچی ہے۔ جسم کوتا قیامت پڑھا جاتا رہے گا۔اسی طرح حواس کی اپنی ایک الگ دنیا ہے جس کے اپنے اسرار ہیں اور اپنے کمالات ۔ حواس بنیادی طور پر پانچ ہوتے ہیں۔ -1 -2 -3 -4 -5 دیکھنا ( بصارت) (Sight) سننا ( سماعت ) چکھنا سونگھنا (Hearing) (Taste) (Smell) محسوس کرنا۔ چھونا (Touch) یہ جسم کیلئے سینسرز sensors کا کام سر انجام دیتے ؟ دیتے ہیں معلومات اکٹھی کرتے ہیں اور دماغ کو پہنچاتے ہیں۔ ان کا اصل کام جسم اور ذہن سے مل کر خواہش کو جنم دینا ہے اس پر آگے بات ہو گی ۔ حواس کو کام کرنے کیلئے مخصوص اعضاء دیئے گئے ہیں۔ بصارت آنکھ کو کیمرے کی طرح استعمال کرتی ہے، سماعت کانوں کے ساتھ جڑی ہے، چکھنے کی حس زبان میں ہے، سونگھنے کیلئے ناک استعمال ہو رہی ہے اور چھونے کی محسوس کرنے کی حس پورے وجود کے پور پور میں سمائی ہے۔ واضح رہے کہ یہ تعریف طبی نقطہ نگاہ سے نہیں کی گئی کیونکہ اللہ ایک تخلیق سے ہزاروں لاکھوں مقاصد حاصل کرتا ہے۔ جیسے ناک صرف سونگھنے کیلئے نہیں ہے بلکہ سانس لینے اور نکالنے سمیت اس کے بے شمار کام ہیں۔ یہاں حواس کے بیان کا مقصد صرف اپنی پہچان کیلئے ہے۔ ہم گل میں سے جزو کو الگ کر رہے ہیں تا کہ جو ایک نظر آ رہا ہے، حقیقت میں وہ کیا ہے یہ جان سکیں ۔ حواس کے پاس بھی اپنا کوئی علم نہیں ہے۔ ذہن کے بغیر حواس کے پاس جو معلومات ہیں وہ کسی کام کی نہیں ہیں۔ ایک نظر ذہن کو بھی دیکھتے ہیں۔۔۔ موضوع کی مناسبت سے سر دست صرف اتنا سمجھ لینا کافی ہے کہ ذہن جسمانسانی میں یادداشت کا مرکز و محور ہے۔ یہ ڈیٹا سنٹر ہے۔ تجزیہ کار analyst ہے۔ یہ تمام جسم اور حواس پر حکمران ہے۔ حواس باہری دنیا کی معلومات اسے مہیا کرتے ہیں اس انفارمیشن کی مدد سے ماضی کے تجربات کو استعمال کر کے ذہن ایک تجزیہ کار کی حیثیت سے فیصلہ صادر کرتا ہے جسم اور حواس جسے ماننے کے پابند ہوتے ہیں۔ یہ جان لینا ضروری ہے کہ ذہن mind اور دماغ brain دونوں الگ ہیں مگر ایک دوسرے سے جڑے ہیں۔ جیسے جسم مادی اور روح غیر مادی ہے اسی طرح دماغ مادی اور ذہن غیر مادی ہے۔ دماغ اعصابی ا نظام اور بہت سے دوسرے خلیات سے مل کر بنا ہے جن کو دیکھا جا سکتا ہے، چھوا جا سکتا ہے جبکہ ذہن غیر مادی ہے یہ سوچ کا نام ہے۔ ذہن دماغ کے ذریعے تمام جسم انسانی سے سے جڑا ج ہے۔ نفس انسان ان تین حصوں ۔ سے مل کر بنا ہے جسم ، حواس اور ذہن ۔ یہ تینوں ایک دوسرے کے بغیر بیکار ہیں۔ کسی ایک کی دوسرے کے بغیر کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اگر اس سوال پر گہرائی سے غور کیا جائے کہ میں کون ہوں؟ تو انسان ورطہ حیرت میں گم ہو جاتا ہے۔ کیا میں جسم ہوں؟ کیا میں احساس ہوں؟ کیا میں ذہن ہوں؟ جب بھی کوئی اندر اتر کر دیکھتا ہے تو پاتا ہے کہ میں یہ سب نہیں ہوں۔ میں ان سب سے ماورا ہوں ۔ میں ایک حقیقت منتظر ہوں ۔ میری عزت ، میرے خیالات ، جذبات ، میرا علی ، میراعلم ، میری دنیا۔۔۔ یہ سب کس کا ہے یہ عزت کس کی ہے؟ کیا عزت میرے جسم کی ہے؟ احساس کی یا پھر میرے ذہن کی؟ ان سوالوں کے جواب جاننے کیلئے آیئے نفس کی تہہ در تہہ گہرائیوں میں اُترتے ہیں۔
میں کون ہوں؟ خودی کیا ہے؟ نفس کیا ہے؟ Who am I? What is Ego? What is Self? اپنی پہچان کیلئے جب ہم قرآن مجید سے مدد لیتے ہیں تو اللہ نے دو طرح کے دشمنوں کا ذکر کیا ہے جن میں سے ایک شیطان اور دوسرا نفس انسان ہے۔ شیطان کھلا اور نفس چھپا ہوا دشمن ہے۔ شیطان کے بارے میں علم عام ہے لیکن نفس کا علم دشوار اور پوشیدہ رہا ہے۔ قرآن کریم میں انتہائی شدت کے ساتھ نفس کے تزکیہ کا حکم دیا گیا ہے۔ تزکیہ تب ہی کیا جاسکتا ہے جب ہم اس دشمن کو جان لیں خوب اچھی طرح پہچان لیں کہ آخر نفس ہے کیا ؟ اس کے افعال کیا ہیں؟ تبھی ہم اس قابل ہو سکتے ہیں کہ اسے پاک کر سکیں ۔ آئیے اللہ کا نام لے کر نفس کے طلسم ہوشربا میں اترتے ہیں اور اسے جاننے کا آغاز کرتے ہیں۔ بنیادی طور پر نفس کے تین حصے ہیں ۔۔۔ بسم (Body) ، حواس خمسہ (Five Senses) ، ذہن (Mind) هم بالترتیب تینوں کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ جسم ایک رونمائی ہے Body is appearance ۔ ہر جاندار کا وجود اُس کے جسم کے ساتھ ہے ۔ جسم واحد جرثومے singular cell سے بنا ہے ۔ یہ ایک حیاتیاتی مادہ matter ہے۔ جسم body ایک زندہ چیز نہیں ہے۔ حواس خمسہ موجود نہ ہوں دماغ کام نہ کر رہا ہو تو جسم کی اپنی حیثیت ایک مردہ شے کی ہے۔ جسم کا عقل سے براہ راست کوئی زیادہ تعلق نہیں ہے۔ جسم حیوانی ہے اور اس میں دو جبلتیں ہیں۔ بچاؤ survival اور افزائشِ نسل یعنی reproduction۔ جسم صرف بھوک مٹانے اور اپنی پیداوار بڑھانے reproduction میں دلچسپی رکھتا ہے اسے باقی کسی شے سے غرض نہیں۔ گو کہ انسانی جسم اپنی بناوٹ اور نفاست کے اعتبار سے تمام حیوانی اجسام میں اعلیٰ وجود رکھتا ہے لیکن پھر بھی یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ بنیادی طور پر حیوان اور انسان کے جسم میں حیاتیاتی اعتبار سے کوئی زیادہ فرق موجود نہیں۔ زندگی اس کی سرشت ہے یہ بذات خود زند خود زندگی ہے اسے اس دنیا میں بچنے کیلئے survive کرنے کیلئے خوراک چاہیے اور یہی اس کی اولین ترجیح ہے۔ بھوک مٹانے کے بعد یہ خود کو ابدی eternal کرنا چاہتا ہے، لازوال ہونا چاہتا ہے۔ اس کے لئے اُس کے پاس صرف یہی ایک راستہ بچتا ہے کہ وہ اپنی نسل کو جنسی عمل sex سے آگے بڑھائے۔ اس کیلئے یہ کسی لذت کا طلب گار نہیں ۔ لذت pleasure جسم کا نہیں ذہن کا مسئلہ ہے۔ اسے تو صرف خود کو آگے بڑھانا ہے organism کو deliver کرنا ہے تا کہ زندگی قائم رکھ سکے۔ یہی اس کی عقل ہے اور اتنا ہی اس کا مقدر ہے۔ یہ مٹی سے بنا ہے، انسان کو اسی دنیا میں ایک لباس کی صورت عطا کیا جاتا ہے۔ ایک ایسا لباس جو انسان کا اپنا نہیں بلکہ اس زمین کا ہے۔ وجود اس دھرتی کا ہے جو موت کے وقت اسی دھرتی کو سونپ دیا جاتا ہے جیسے کوئی ادھار کو لوٹا دیتا ہے اسی طرح مٹی کا وجود مٹی واپس لے لیتی ہے یہاں تک کہ انسان روز قیامت دوبارہ اٹھائے جائیں اُن کے وجود کو اسی مٹی میں ضم ہو جانا ہے، فنا ہو جانا ہے، مٹی کو مٹی میں مل جانا ہے۔ جسم نہیں جانتا کہ وہ زندہ ہے یا مردہ۔ اسے کوئی خبر نہیں کہ تکلیف کیا شے ہے۔۔۔ یہ سب تو اسے ذہن بتاتا ہے حواس بتاتے ہیں۔ اس بات کو ایک مثال سے سمجھتے ہیں۔ فرض کیجئے ایک شخص کو میز پر لٹا کر اس سے اس کا نام ، بیوی ، بچے تعلیم اور کاروبار کا پوچھا جائے جواب ملنے کے بعد اس کے دونوں بازو کاٹ دیئے جائیں اور پھر یہی پوچھا جائے کہ تم کون ہو تو جواب پہلے والا ہی ملے گا۔ پھر دونوں ٹانگیں بھی جسم سے جدا کر دی جائیں اور وہ شخص میز پر پڑا ہوا و محض محض ایک ایک دھڑ دھڑ ہی ہی ر رہ جائے تب بھی بھی اس اس کا کا نام نام تعلیم تعلیم ، کاروبار ، گھر بار، بیوی بچے وہی رہیں گے۔ اس کا صاف مطلب ہے کہ وجود شخصیت کا ایک حصہ ضرور ہے لیکن مکمل شخصیت ہرگز نہیں ہے پھر وہ کون ہے جو جسم سے ماوراء ہے؟ یہ صرف جسم کا وہ تعارف ہے جو تزکیہ نفس کیلئے انسان کو درکار ہے وگرنہ جسم اللہ رب العزت کی حسین ترین تخلیق ہے۔ اس کے اندرونی و بیرونی اعضاء کی تخلیق پر قیامت تک بھی غور کیا جاتا رہے تو کبھی بھی یہ پتا نہ چل پائے گا کہ یہ آخر ہے کیا ؟ آج سے قریباً تیس سال پہلے جا کر دیکھیں کہ سائنس اس جسم کو اتنا کم جانتی تھی اتنا under estimate کر رہی تھی کہ ہر بیماری کیلئے صرف ایک ہی ڈاکٹر ہوا کرتا تھا لیکن پھر انسان کو احساس ہوا کہ یہ اتنا آسان نہیں ہے تو ہر عضو کی سپیشلائزیشن کا دور شروع ہواحتی کہ دانتوں کیلئے سات سال کی طبی تعلیم لازم قرار پائی۔ جتنا اندر اتر - جتنا اندر اترتے چلے جاتے ہیں اتنا ہی راز الجھتا چلا جاتا ہے حتیٰ کہ بات کلوننگ سے بڑھ کر میوٹیشن تک جا پہنچی ہے۔ جسم کوتا قیامت پڑھا جاتا رہے گا۔اسی طرح حواس کی اپنی ایک الگ دنیا ہے جس کے اپنے اسرار ہیں اور اپنے کمالات ۔ حواس بنیادی طور پر پانچ ہوتے ہیں۔ -1 -2 -3 -4 -5 دیکھنا ( بصارت) (Sight) سننا ( سماعت ) چکھنا سونگھنا (Hearing) (Taste) (Smell) محسوس کرنا۔ چھونا (Touch) یہ جسم کیلئے سینسرز sensors کا کام سر انجام دیتے ؟ دیتے ہیں معلومات اکٹھی کرتے ہیں اور دماغ کو پہنچاتے ہیں۔ ان کا اصل کام جسم اور ذہن سے مل کر خواہش کو جنم دینا ہے اس پر آگے بات ہو گی ۔ حواس کو کام کرنے کیلئے مخصوص اعضاء دیئے گئے ہیں۔ بصارت آنکھ کو کیمرے کی طرح استعمال کرتی ہے، سماعت کانوں کے ساتھ جڑی ہے، چکھنے کی حس زبان میں ہے، سونگھنے کیلئے ناک استعمال ہو رہی ہے اور چھونے کی محسوس کرنے کی حس پورے وجود کے پور پور میں سمائی ہے۔ واضح رہے کہ یہ تعریف طبی نقطہ نگاہ سے نہیں کی گئی کیونکہ اللہ ایک تخلیق سے ہزاروں لاکھوں مقاصد حاصل کرتا ہے۔ جیسے ناک صرف سونگھنے کیلئے نہیں ہے بلکہ سانس لینے اور نکالنے سمیت اس کے بے شمار کام ہیں۔ یہاں حواس کے بیان کا مقصد صرف اپنی پہچان کیلئے ہے۔ ہم گل میں سے جزو کو الگ کر رہے ہیں تا کہ جو ایک نظر آ رہا ہے، حقیقت میں وہ کیا ہے یہ جان سکیں ۔ حواس کے پاس بھی اپنا کوئی علم نہیں ہے۔ ذہن کے بغیر حواس کے پاس جو معلومات ہیں وہ کسی کام کی نہیں ہیں۔ ایک نظر ذہن کو بھی دیکھتے ہیں۔۔۔ موضوع کی مناسبت سے سر دست صرف اتنا سمجھ لینا کافی ہے کہ ذہن جسمانسانی میں یادداشت کا مرکز و محور ہے۔ یہ ڈیٹا سنٹر ہے۔ تجزیہ کار analyst ہے۔ یہ تمام جسم اور حواس پر حکمران ہے۔ حواس باہری دنیا کی معلومات اسے مہیا کرتے ہیں اس انفارمیشن کی مدد سے ماضی کے تجربات کو استعمال کر کے ذہن ایک تجزیہ کار کی حیثیت سے فیصلہ صادر کرتا ہے جسم اور حواس جسے ماننے کے پابند ہوتے ہیں۔ یہ جان لینا ضروری ہے کہ ذہن mind اور دماغ brain دونوں الگ ہیں مگر ایک دوسرے سے جڑے ہیں۔ جیسے جسم مادی اور روح غیر مادی ہے اسی طرح دماغ مادی اور ذہن غیر مادی ہے۔ دماغ اعصابی ا نظام اور بہت سے دوسرے خلیات سے مل کر بنا ہے جن کو دیکھا جا سکتا ہے، چھوا جا سکتا ہے جبکہ ذہن غیر مادی ہے یہ سوچ کا نام ہے۔ ذہن دماغ کے ذریعے تمام جسم انسانی سے سے جڑا ج ہے۔ نفس انسان ان تین حصوں ۔ سے مل کر بنا ہے جسم ، حواس اور ذہن ۔ یہ تینوں ایک دوسرے کے بغیر بیکار ہیں۔ کسی ایک کی دوسرے کے بغیر کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اگر اس سوال پر گہرائی سے غور کیا جائے کہ میں کون ہوں؟ تو انسان ورطہ حیرت میں گم ہو جاتا ہے۔ کیا میں جسم ہوں؟ کیا میں احساس ہوں؟ کیا میں ذہن ہوں؟ جب بھی کوئی اندر اتر کر دیکھتا ہے تو پاتا ہے کہ میں یہ سب نہیں ہوں۔ میں ان سب سے ماورا ہوں ۔ میں ایک حقیقت منتظر ہوں ۔ میری عزت ، میرے خیالات ، جذبات ، میرا علی ، میراعلم ، میری دنیا۔۔۔ یہ سب کس کا ہے یہ عزت کس کی ہے؟ کیا عزت میرے جسم کی ہے؟ احساس کی یا پھر میرے ذہن کی؟ ان سوالوں کے جواب جاننے کیلئے آیئے نفس کی تہہ در تہہ گہرائیوں میں اُترتے ہیں۔
Comments