علم اور عقل
علم اور عقل
نفس کو جاننے کیلئے سب سے پہلے علم اور عقل کو جاننا اور پہچاننا ہوگا۔ علم کیا ہے اور عقل کیا ہے؟ اللہ قرآن میں فرماتا ہے کہ علم دیا گیا مگر تھوڑا سا۔۔۔محمد ود ساLimited علم ہے۔ وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِيتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا
اور یہ لوگ تجھ سے روح کے متعلق سوال کرتے ہیں، کہہ دو روح میرے رب کے حکم سے ہے اور تمہیں جو علم دیا گیا ہے وہ بہت ہی تھوڑا ہے۔
( سورۃ بنی اسرائیل 85)
وه إلا قليلا کہتا ہے۔ اگر خالق کہہ رہا ہے کہ علم تھوڑا ہے تو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ عقل محدود
ہے۔ پہلے علم اور عقل میں فرق کو سمجھ لیں۔
علم کسی شے کو جان لینے کا نام ہے knowing ہے ۔ خود کو جاننے کیلئے ہمیں تلاش inquire کرنا ہو گا کہ ہمارے علم کا معیار کتنا ہے اس کی پہنچ کہاں تک ہے تو بات یہاں پہنچتی ہے کہ علم اپنی اصل میں کیا ہے؟ علم کی اصلیت actuality تک پہنچنے کیلئے ہمیںخیال thought کو جاننا ہوگا کیونکہ ذہن کی حرکت علم کی حرکت ہے یعنی علم خیال سے متحرک ہوتا ہے۔ خیال یادداشت کا نام ہے memory ہے۔ ڈیٹا ہے۔ اگر کسی کی یادداشت کھو جائے تو اس کی سوچ ختم ہو جاتی ہے یا بے ترتیب ہو کر علم کے بگاڑ میں تبدیل
ہو جاتی ہے اور پاگل پن کا ظہور ہوتا ہے۔ ہمارے تمام تر خیالات ہماری مکمل ترین یادداشت memory ہیں اور ہماری تمام تر یادداشت memory ہمارا ماضی ہے۔ ۔ ۔ غور کیجئے کیا ایسا نہیں ہے؟ ہمارے پاس مستقبل کی کوئی یادداشت memory نہیں ہے کوئی ڈیٹا نہیں ہے۔ حال کے اندر فی الوقت ہم خود موجود ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تمام یادداشت memory ماضی ہے past ہے۔ جو ہو چکا ہے وہ ہمیں یاد ہے اور یہی یاد ہمارا خیال ہے۔ مصنف پر یقین کرنے
کی بجائے ان سطروں کی شک doubt کی نگاہ سے دیکھیں اور اپنا تجزیہ خود کریں۔ جن تجربات و احساسات سے ہم گزر چکے ہیں وہ ہمارا ماضی ہے۔ ہم نے کہیں پڑھا، کہیں سے سنا، کہیں دیکھا ، جو کچھ چکھا سونگھا۔۔۔ جو بھی اپنی ساری زندگی محسوس کیا وہ ہمارا تجربہ
experience ہے، ہمارا ادراک ہے۔ یہ ہمارا ماضی ہے اور ہمارا ماضی past ہی ہمارا تمام تر علم knowledge ہے۔ ہمیں مستقبل کا کوئی علم نہیں ۔ حال کے تجربے سے ہم اس وقت گزر رہے ہیں۔ اس لئے ہمارا سارا علم ہمارا ماضی past ہے۔ علم knowledge اپنی حقیقت reality میں ماضی
ہے۔ fact ہے۔ یہ ایک حقیقت past دنیا میں کم و بیش پچاس ہزار سال سے انسان جیتا اور مرتا چلا آرہا ہے۔ کسی کو علم نہیں کہ کتنی تعداد ہے نہ کوئی گن سکتا ہے۔ یہاں تک کہ آج کل ہر روز چھ ارب سے اوپر آدم جی رہا ہےمر رہا ہے۔ اپنے ہم جنسوں کی اتنی عظیم تعداد کے درمیان جیتا ہوا ( ایک انسان ) بے حقیقت شے ہے۔ اس کے تجربات لازم ہے کہ محدود تر کہلائیں۔ چونکہ اس کی ذاتی زندگی ایک محدود دائرے میں چل رہی ہے اس لئے اس کے پاس ماضی کی صورت میں جو معلومات موجود ہیں جسے وہ علم کہتا ہے وہ إِلَّا قَلِیلا ہے۔ دیا گیا مگر بہت تھوڑا
ساlimited ۔ ۔ عقل intellect اس علم کو استعمال کرنے کا نام ہے۔ کسی بھی صورت حال میں ہمیں جو فیصلہ کرنا ہے وہ عقل ہے جس کی بنیاد علم ہے۔ چونکہ ہمارا علم محدود ہے اس محدود علم کی بنیاد پر روز مرہ زندگی کے جو چھوٹے بڑے فیصلے ہم روزانہ کرتے ہیں وہ بھی انتہائی محدود حیثیت کے حامل ہوتے ہیں اسے زاویہ نظر perspective کہتے ہیں ۔ ہمارا زندگی کو گزارنے کا زاویہ نظر تنگ ، چھوٹا اور محدود ہوتا accidental ہوتا ہے ۔اسی لئے ہم حادثاتی انسان limited اور narrow ہے being کی طرح زندگی گزارتے ہیں۔ ہمارے فیصلے کی ، ہماری عقل کی اور ہمارے علم کی کوئی بنیاد نہیں ہوتی ۔ ہم اپنے تمام فیصلے اپنے ماضی کے تجربات کو مد نظر رکھتے ہوئے
کر رہے ہوتے ہیں۔ ایسے محدود تر زاویہ نظر سے ہم سچ تک کیسے پہنچ سکتے ہیں؟
ہم حال present میں بیٹھ کر اپنے ماضی past کا تجزیہ analysis کرتے ہوئے modify future اپنے مستقبل کے خدو خال بنانے نے اور اور ا۔ اسے تبدیل کرنے میں مصروف ہوتے ہیں۔ جبکہ ہمیں تخلیق کرنے والا ہمارا مالک ہمیں کہتا ہے کہ کوئی ذی روح نہیں جانتا
کہ وہ کل کیا کرے گا۔
بے شک اللہ کو قیامت کا علم ہے اور وہ بارش نازل کرے گا اور وہ جانتا ہے جو کچھ رحموں میں ہے۔
کوئی جان نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کمائے گا اور کوئی جان نہیں جانتا کہ وہ کس زمین سے کمائے گا۔
تم مرجاؤ، بے شک اللہ سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے۔بے شک اللہ ہی کو قیامت کی خبر ہے، اور وہی مینہ برساتا ہے، اور وہی جانتا ہے جو کچھ ماؤں کے پیٹوں میں ہوتا ہے، اور کوئی نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کرے گا ؟
اور کوئی نہیں جانتا کہ وہ کس زمین پر مرے گا ؟ بے شک اللہ جاننے والا خبر دار ہے۔
(سورہ لقمان (34))
انسان کیوں نہیں جانتا اس راز سے پردہ سورہ البقرہ کی آیات 30 تا 33 میں اُٹھایا گیا ہے جب اللہ نے فرمایا کہ میں زمین پر اپنا نائب انسان کو بنانے والا ہوں تو فرشتوں نے حیرت سے کہا کہ اے رب یہ تو خون بہانے اور فساد کرنے والا ہے۔ اللہ نے کہا جو میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے پھر اللہ نے آدم کو کچھ چیزوں کے نام سکھا دیئے پھر ایک مدت بعد فرشتوں سے پوچھا کہ ان اشیاء کے اسماء بتاؤ ۔ انہوں نے عاجزی کی کہ اللہ تو نے جو بتایا ہم وہی جانتے ہیں اس سے زیادہ : سے زیادہ کچھ نہیں پھر آدم کو حکم دیا تو اس نے نام بتا دیے۔ اگر آپ غور کریں تو پتا چلتا ہے کہ ہمیں اشیاء کے ناموں کا علم ہے اور ان کے اچھے برے خواص کا بھی علم ہے لیکن ہم کسی بھی شے کی حقیقت نہیں جانتے ۔ آپ کی پوری زندگی آپ کے پورے علم میں کوئی ایک شے بھی ایسی نہیں جس کی اصل حقیقت اور
کا آپ کوعلم ہو۔ actuality ماہیت
ماچس کا پتا ہے کہ اس سے آگ جلے گی فائدہ کا بھی پتا ہے اور نقصان کا بھی لیکن آگ بذات خود کیا ہے؟ کچھ گیسز کا مجموعہ؟ اچھا ؟؟؟ گیس اپنی اصل میں کیا ہے؟ اس کی actuality کیا ہے؟ ماچس میں تیلی ہے اس کے سرے پر مصالحہ ہے۔ تیلی لکڑی سے بنی ہے۔ لکڑی درخت سے آئی ہے۔ درخت کے پتے ، شاخیں ہیں، تنا ہے، اس کی جڑ ہے،
درخت بیچ سے بنتا ہے ہر شے کا بیج ہوتا ہے لیکن یہ بیج اصل میں کیا ہے؟؟؟جب بھی آپ کسی شے کی جڑ root تک جائیں گے تو دیکھیں گے کہ کسی بھی شے کی اصل حقیقت کا ہمیں کچھ بھی زیادہ علم نہیں ( دیا تو گیا ہے لیکن بہت تھوڑا سا ) ہمارا علم محدود limited ہے۔ جب تک ہم اس حقیقت کو سمجھ کر مان نہیں لیتے تب تک اصل علم کا دروازہ ہم پر نہیں کھلتا نہ ہی نفس کا تزکیہ ہو پاتا ہے۔ فرما یا رب لاشریک نے انسان ظالم کو کیوں statement ہے تو ہم اپنے رب کی اس ignorant اور جاہل violent
نہیں مانتے کہ ہم جاہل ہیں۔ مانیں گے نہیں تو جہل کا طلسم کیسے ٹوٹے گا ؟
بے شک ہم نے امانت کو آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا تو انہوں نے اسے اٹھانے سے انکار کر دیا اور اس سے ڈر گئے لیکن انسان نے اسے اٹھا لیا، بے شک وہ ظالم اور جاہل تھا۔
ہم نے آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے امانت پیش کی پھر انہوں نے اس کے اٹھانے سے انکار کر دیا اور اس سے ڈر گئے اور اسے انسان نے اٹھالیا،
بے شک وہ بڑا ظالم بڑا جاہل تھا۔
( سورہ الاحزاب (72)
علم اور عقل کے علاوہ بھی ایک شے ہمارے پاس ہے جسے شعور کہا جاتا ہے ۔ یہ ایک بڑی
آنکھ، ایک وسیع تر زاویہ نظر ہے۔ ہمیں ایک لحظے میں پتہ ہے کہ ہم کون ہیں؟ اپنی ساری
زندگی سے ہم ایک لمحے میں باخبر ہیں۔ اس کیلئے ہمیں کسی علم و عقل کی ضرورت نہیں ہے۔
ہم باخبر aware ہیں کہ ہم زندہ ہیں۔ ہمیں اپنے جسم حواس اور علم و عقل کا شعور
awareness ہے۔ ہمیں یاد رکھنے کی ضرورت نہیں یہی ہمارا شعور ہے۔ ایک مثال
سے سمجھتے ہیں ۔ ۔ ۔ آپ نے اکثر ڈائری کے شروع میں دنیا کا نقشہ دیکھا ہوگا۔ اس نقشے
میں اگر آپ کوئی شہر ڈھونڈ رہے ہوں تو آپ نقشے میں گم ہوتے ؟ ہیں۔ آپ کچھ ڈھونڈ
رہے ہیں یہ علم ہے عقل ہے۔اس نقشے کو اس map کو ایک نظر میں پورا دیکھنے کیلئے آپ کو کچھ وقت کیلئے عارضی طور پر منزل destination چھوڑنا ہوگی ۔ سوال چھوڑ دینا ہوگا۔ آپ کو احساس ہوگا کہ اگر آپ کچھ نہیں ڈھونڈ رہے تو آپ پورا نقشہ دیکھ سکتے ہیں اب پوری دنیا ایک نظر میں آ آپ
کے سامنے ہے۔۔۔ یہی شعور ہے۔
کیا انسان اس بات پر قادر نہیں کہ اپنی پوری زندگی پر ایک نظر ڈالے اور سب دیکھ لے۔ کیا آپ نے کبھی ایسا کیا ہے؟ کیا وجہ ہے کہ ہم باشعور ہونے کے باوجود بے شعوری کی زندگی کو ترجیح دیتے ہیں ۔ ہمیشہ ساری زندگی چھوٹے چھوٹے مسائل کے حل میں مصروف آدمی خود کو
پورے طور پر دیکھنے کو تیار نہیں ہوتا۔۔۔ کیوں؟
تمام جہانوں کا رب فرماتا ہے کہ ہم نے تمام انسانوں کو ایک ہی نفس پر پیدا کیا ہے (الاعراف (189) ۔ یعنی ایک ہی نفسیات psyche پر ۔ ۔ ۔ ہم سب کی ایک جیسی نفسیات اور ایک ہی جیسا نفسیاتی خلجان psychosis ہے۔ ہمارے حالات اور واقعات جدا جدا ہیں لیکن ان سے پیدا شدہ کیفیات اور جذبات ایک جیسے ہیں اس لئے کتاب میں جہاں (میں ) لکھا گیا وہ ( آپ ) ہیں اور جہاں ( آپ ) لکھ دیا۔ ۔ ۔ وہ ( میں ) بھی ہوں ۔
ایک ہی بات ہے سب میں ایک ہی نفس کار فرما ہے۔
یادداشت کیا ہے اور کیسے کام کرتی ہے؟ میموری کیا ہے اور یہ کیسے کام کرتی ہے؟ ہمارے ذہن میں یادداشت memory کے بننے کا عمل انتہائی حیرت انگیز اور بے حد دلچسپ ہے۔ اس پر ایک گہری نظر نہ ڈالنا نا انصافی ہوگی ۔ ہمارا دماغ ایک ریکارڈنگ ڈیوائس کے طور پر بھی کام کرتا ہے۔ اسے Recording cognitive بھی کہہ سکتے ہیں طبی اصطلاح میں اسے Process of Mind process کہا جاتا ہے۔ ویسے تو یہ بہت ہی پیچیدہ عمل ہے مگر موضوع کے اعتبار سے مطلب کی بات یہ ہے کہ ہمارا ذہن حواس خمسہ سے ملنی والی ایک ایک خبر کو، ہر ایک احساس ہر جذبے کو ریکارڈ کر رہا ہے محفوظ کر رہا ہے اور ان احساسات و جذبات کو معلومات data میں تبدیل کر رہا ہے۔ یہ بے حد تیز رفتار عمل ہے کہ ہمیں اس کا احساس تک نہیں ہوتا کہ سب محفوظ کیا جارہا ہے۔ سارا دن جو مشاہدات حاصل ہوتے ہیں خواہ وہ دیکھنے سے ہوں ، چکھنے سے تعلق رکھتے ہوں ، سونگھنے سے عمل میں آئیں، جو کچھ دیکھا سنا ہو اور جو بھی محسوس کیا ہو وہ عارضییادداشت short term memory کی شکل میں محفوظ کیا جاتا ہے اور رات کو نیند کے دوران غیر ضروری یادیں memories ختم delete کر د...
Comments