خیال کیا ہے؟ سوچ کیا شے ہے؟ سوچ اور سوچ کے درمیان فرق کیا ہم واقعی سوچتے ہیں؟ ہمیں ایسا لگتا ہے کہ ہم سوچتے ہیں جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ انسان ہرگز کچھ بھی نہیں سوچتا۔ ہم صرف محرک stimulus کا جواب دیتے ہیں respond کرتے ہیں ۔ سوچ اپنی اصل میں ایک مردہ شے dead thing ہے ۔ سوچ ذہن میں پیدا نہیں ہے یہ خود بخود وقوع پذیر نہیں ہو رہی ۔ سوچ thought باہر پیدا نہیں ہور ہی یہ خود بخود وقوت باہر stimulus نہیں ہے۔ محرک internal ہے یہ اندرونی external ہے ہے۔ یہ بہت پیچیدہ سوال ہے آئیے پیاز کے چھلکے کی تہیں اُتارنا شروع کرتے ہیں۔ دیکھتے ہیں آخر میں کیا بچتا ہے؟ نظریہ ارتقاء theory of evolution کی بات شروع ہو تو بہت سے ایسے لوگوں کے دل کو ٹھیس پہنچتی ہے جو اپنے خیالوں میں آدم و حوا کو آسمان سے زمین پر اترتا دیکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی عادت مبارکہ میں تصوراتی بناوٹ نہیں ہے۔اللہ فکشن fiction کو نہیں حقیقت fact کو پسند کرتا ہے ۔ وہ عالم ہے ۔۔۔سب سے بڑا عالم ۔۔۔ وہ کوئی بھی کام ایسا نہیں کرتا جس کی کوئی علمی بنیاد نہ ہو۔ بندر سے انسان بننے کے عمل کو نہ بھی مانا جائے تو یہ بات پھر بھی طے ہے کہ قرآن کہتا ہے انسان پر ایک طویل عرصہ ایسا بھی گزرا ہے جب وہ کوئی قابلِ ذکر شے نہ تھا۔ ( الانسان الدہر 1 ) اگر وہ ہمارے جیسا ہی کوئی انسان بھی تھا تو لازمی امر ہے کہ جانوروں کے قریب تر زندگی گزارتا تھا۔ ہماری خصلتیں بھی اس امر کی شہادت دیتی ہیں۔ ہر انسان میں کسی نہ کسی جانور کی صفت ہوا کرتی ہے۔۔۔ جیسے کوئی بھیڑیا صفت ، شیر کی طرح بہادر، لومڑی کی طرح چالاک اور سانپ کی طرح خطرناک ہوا کرتا ہے ۔ اس اولین دور کے انسان میں عقل و فہم نام کی کوئی شے نہ تھی۔ ارشادِ باری تعالی ہے : ہم نے تمام جانوں کو بخل پر حاضر کیا ( النساء 128) یہ کون سا بخل ہے جو انسان سمیت ہر زندہ شے میں حاضر ہے؟؟؟ ہر قیمت پر اپنی جان بچائے رکھنے کی جبلت سب سے بڑا بخل ہے کہ کوئی مرنے پر آمادہ نہیں ہے ۔ آغاز ہوا تو ہر طرف موت کی بادشاہی تھی انسان انسان کے کے پاس پاس عن عقل تھی نہ ہی علم نتیج یہ تھا کہ دوسرے تمام جانداروں کے ساتھ انسان بھی تیزی سے مر رہا تھا۔ ہر شے اس کی دشمن تھی کبھی سانپ نے کاٹ کھایا تو کبھی کسی کھائی سے نیچے جا گرا، کبھی درندوں نے چیر پھاڑ کر رکھ دیا تو کبھی پانی میں ڈوب مرا۔ پھر ایک دن اس نے مرنے سے انکار کر دیا۔ سو میں سے ننانوے انسان پہاڑ سے گر کر مرے لیکن آخری انسان نے موت کے شدید ترین ا ۔ تیز ہوتے محرک stimulus کو جواب دے دیا respond کر دیا۔۔۔ نیچے ایسا کیا ہے کہ جو جاتا ہے واپس نہیں آتا؟ اسے پہلی بار خوف کے سرد احساس سے شناسائی ہوئی ۔ میں ایسا نہیں کروں گا جیسا مجھ سے پہلے والے کر رہے ہیں ۔۔۔ حادثہ ٹل گیا ۔۔۔ وہ بچ گیا ۔۔۔ زندگی کو قرار آنے لگا۔ انسان نے hit & trial سے سیکھناشروع کیا اور پھر وہ سوچتا ہوا انسان بن گیا۔ ہزاروں سال گزرتے چلے گئے محرک stimulus کی تعداد بے اندازہ بڑھتی گئی اور اس کے رد عمل میں جواب response بھی بڑھتا گیا۔ نسل در نسل یہ معلومات یہ data شفٹ ہوتا رہا۔ کچھ جینز سے اور بہت سا علم کے طور پر بھی انسان کی نسل کو آگے منتقل ہو رہا تھا جس کے نتیجے میں انسان ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید سوچنے والا بنتا چلا گیا۔ اسی دوران خالق کائنات نے آسمانی کتابوں کو انبیاء ، رسولوں اور پیغمبروں کے ذریعے اتارا۔ انسان کو وہ سکھایا جو وہ جانتا نہ تھا محرک stimulus کا جواب تو جانور بھی دے رہا تھا۔ ہرن شیر کو دیکھ کر بھاگ رہا تھا ۔۔۔ مگر انسان کی قابلیت اور تھی اس میں شعور تھا۔۔۔ إِنَّا خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَةٍ أَمْشَاجٍ نَبْتَلِيْهِ فَجَعَلْنَهُ سَمِيعًا بَصِيرًا بے شک ہم نے انسان کو ایک مرکب بوند سے پیدا کیا ، ہم اس کی آزمائش کرنا چاہتے تھے پس ہم نے اسے سننے والا دیکھنے والا بنادیا۔ (الانسان / الدہر (2) صرف زمینی متحرک سے آدمی کبھی انسان نہ بن سکتا تھا اس لئے اللہ نے کتابیں اتاریں انبیاء بھیجے۔ یہ نسل انسان کے استاد تھے۔ انہوں نے انسان کو اللہ کی کتابوں سے اچھے برے کی تمیز سکھائی تا کہ انسان کو آزمایا جا سکے کہ کون اچھا ہے اور کون بُرا ہے۔ یا د رکھنے کی بات ہے کہ معاشرہ وجود میں لانے کی طاقت صرف اور صرف آسمانی مذہب میں ہوتی ہے۔ اگر الہامی مذاہب نہ آتے تو معاشرہ کبھی وجود نہ پاسکتا تھا۔ انسان سوچتا نہیں ہے صرف متحرک stimulus کو جواب دیتا ہے respond کرتا ہے ۔ خیال thought ایک میموری ہے ، یادداشت ہے ۔ ذہن میں یہخیالات thoughts کی مخصوص ترتیب یعنی patterns ہوتے ہیں جیسے جوتا ایک متحرک stimulus ہے جس کا جواب response پاؤں ہے مگر اس کا ایک pattern ہے جس میں ایسی تمام میموریز memories ایک ہی جگہ محفوظ ہیں جن کا تعلق جوتے اور پاؤں سے ہو سکتا ہے۔ موچی ہے چپل ہے ، بوٹ اور تسے ہیں ، شو پالش اور جوتے بنانے والی کمپنیوں کے اشتہارات ہیں۔ جوتا ٹوٹ جانے کا کوئی واقعہ بھی اسی pattern میں ہے۔ اسی طرح جوتا ٹوٹ جانے پر جس جگہ وقت پر نہ پہنچ پانے کی وجہ سے ندامت ہوئی تھی اس خیال کا pattern اس جوتے کے خیال کے pattern سے جڑا ہے۔ یہ پیچ در پیچ خیالات کا ایک لامتناہی سلسلہ ہوتا ہے جو یادداشت کی صورت میں ہمارے ذہن میں محفوظ ہوتا ہے۔ ایک عام سے جوتے کا متحرک آپ کو خیالوں کے سمندر میں غرق رکھنے کو کافی ہے اور ہمارے ارد گرد اربوں کھربوں محرکات موجود ہیں جو ہمیں ہر وقت مصروف خیال رکھتے ہیں۔ خیال اور شے ہے سوچ اور ہے۔ خیال برق کی طرح ہے ، چھوٹا ہے، لپک کر آتا ہے ۔ یہ متحرک کا جواب ہے اسے خیال thought کہتے ہیں۔ خیال کبھی بھی قائم نہیں رہ سکتا یہاں تک کہ آپ اسے قبول Thought is not self employed at all نہ کرلیں ۔۔۔ آپ کے قبول کرتے ہی attend کرتے ہی خیال سوچ میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ اسے سوچنا thinking کہتے ہیں ۔ اب آپ یادداشتوں کے سلسلوں میں patterns میں بھٹکنا شروع کر دیتے ہیں یہاں تک که تصورات images شروع ہو جاتے ہیں اور پھر تصوراتی دنیا world of imagination آباد ہو جاتی ہے۔انسان اپنے خیالوں سے سوچتا ہوا تصورات کے جہان آباد کرتا ہے۔ لوگوں سے بدلے لیتا ہے ۔ گزر چکے واقعات کو دہراتا rewind کرتا ہے ۔ خیالی کامیابیوں کے جھنڈے گاڑتا، محبوبہ سے ملاقاتیں کرتا اور اپنی سوچوں میں امارت کی بلندیوں کو جاتا انسان۔ یہ سب ذہنی خودلذتی mind masterbation ہے جس کا کم یا زیادہ ، کچھ عرصہ، تادیر یا ہمیشہ ہم سب شکار ہوتے ہیں ۔۔۔ موضوع کی طوالت کا خطرہ نہ ہو تو صرف اس ایک موضوع پر ہی کتاب لکھی جاسکتی ہے۔ لیکن مقصد چونکہ صرف نفس کی پہچان ہے اس لئے اسے تشنہ چھوڑ کر آگے بڑھنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔
Comments